جناب مظفر الحق صاحب کا ایک مضمون لالو کھیت سے لیاقت آباد کراچی اپڈیٹ ڈاٹ کام (Karachiupdates.com) کے توسط سے نظر کے سامنے آیا اور لالو کھیت سے لیاقت آباد کے عنوان کے تحت یہ خیال گزرا کہ انہوں نے لالو کھیت کے لیا قت آباد موسوم ہونے پر کوئی تاریخی بات لکھی ہو گی پورے مضمون کو بصد شوق پڑھ ڈالا اور وہ راز سامنے نہ آیا بلکہ سندھی ہوٹل اے ایریا کے حوالے سے انہوں نے روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر جناب محمود احمد مدنی مرحوم کے چچا کا تذکرہ کچھ اسطرح کیا کہ جیسے نیاز احمد مدنی مرحوم انکے چچا تھے میں یہ تصحیح کرنا چاہوں گا کہ موصوف نیاز احمد مدنی مرحوم انکے خالہ زاد بھائی تھے۔
اور مرحوم محمود احمد مدنی کے چچا مرحوم سید اظہر العباس مدنی ہی کے دم سے یہ لالوکھیت لیاقت آباد کہلایا قصہ اسطرح ھے کہ جب ۱۹۵۱ء عیسوی میں اس علاقے میں چھونپڑیاں بنوائی گئیں اور پانی اور عوامی استعمال کے لیئے رفع حاجت خانوں کا انتظام مکمل ہوگیا تو وہاں لائے جانے والے لوگوں نے جو اس وقت مولوی مسافر خانے میں اور کوتوال بلڈنگ کے آس پاس متروکہ املاک میں ٹھرے ہوئے تھے انھوں نے یہاں آنے سے انکار کردیا۔ تو پیر کالونی اور آس پاس کی بستیوں میں جو لوگ ایک گھر میں دس دس خاندان ٹھرے ہوئے تھے انہوں نے ان جھونپڑیوں کا رخ کیا اور ہر خاندان نے کم از کم ایک جھونپڑی پر قبضہ کیا دوسری صبح پولیس والے آگئے اور بے عزت کر کے نکالنے لگے، مرحوم جناب اظہرالعباس صاحب مدنی اپنی اہلیہ سے کہہ رہے تھے کہ واپس چلو کہیں اور ٹھکانہ کرینگے اور انکی اہلیہ مرحومہ کہہ رہی تھیں کہ اگر ہم نے یہ جگہ چھوڑدی تو ہمارے بھائی وغیرہ دفتر سے واپسی پر ہمیں کہاں ڈھونڈیں گے کم از کم شام تک تو ہمیں یہاں رکنا پڑیگا ابھی اسی کشمکش میں مبتلا تھے کہ ایک پولیس والا جھونپڑی کے اندر گھس آیا موصوف غیرت سے جلال میں آگئے اور اسکو زوردار تھپڑ رسید کیا کہ تیری یہ جرات کہ تو با پردہ خواتین کی موجودگی میں اندر گھس آیا، پھر کیا تھا پولیس نے پکڑلیا اور تھانے لے جانے لگے۔
مرحوم اظہرالعباس صاحب مدنی دراصل کانگریس میں بڑا اثر رسوخ رکھتے تھے اور دیو بند کے فرزند ہونے کی بنا پر ہندوستان میں مرحوم لیاقت علی سے کہا کرتے تھے کہ تم وہاں مسلمانوں کو لیجا کر ذلت میں ڈال دوگے مگر اپنی خوش دامن جو کہ قریب المرگ تھیں انکی خواہش پر پاکستان آگئے تھے اور لالو کھیت میں اس بے عزتی کا سامنا ہوا، جب پولیس والے تھانے لے گئے تو آج جہاں فریش ویل مٹھائی کی دکان ہے یہاں مسلم لیگ کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ لیاقت علی مرحوم اس وقت گل راعنا کلب والی عمارت میں مقیم تھے اس تنازع کو سن کر اپنی سیاہ مورس کار میں یہاں دفتر پر آئے اور جناب اظہرالعباس صاحب مدنی سے آمنا سامنا ہوا تو اظہرالعباس صاحب نے کہا ’’لیاقت ہم نے نہ کہاتھا کہ تم وہاں لے جاکر ذلیل کراؤگے‘‘ مرحوم لیاقت علی آبدیدہ ہوگئے اور اسی وقت پولیس سے رہائی دلائی اور اپنی گاڑی کی چھت پر کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ جو جہاں بیٹھا ہے وہ جگہ اسکی ہے اور کسی کو اپنی جھونپڑی چھوڑنے کی ضرورت نہیں اس پر تمام لوگ خوشی سے لیاقت علی زندہ آباد کا نعرہ لگاتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوگئے اور اس روز سے یہ لالو کھیت لیاقت آباد کہلایا۔