1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. طاہر احمد فاروقی/
  4. آزاد کشمیرکی آئینی دستاراور مہاجرین نشستوں کا تحفظ

آزاد کشمیرکی آئینی دستاراور مہاجرین نشستوں کا تحفظ

آزاد جموں وکشمیر مملکت پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کے سایہ خدا ئے ذوالجلال میں مہذب اقوام کے آئینہ دار سنگ میل سفر کیجانب آغاز کر چکا ہے ایکٹ1974 ؁ء دستور کی معراج سے ہمکنار ہو کر تیرویں ترمیم کی منظوری کے ساتھ صدر ریاست مسعود خان کے دستخطوں سے سرکاری گزٹ میں شائع ہونے کے بعد نافذ العمل ہوگیا ہے جسکے ساتھ ہی آزاد حکومت انتظامی مالیاتی خود مختاری اور سب خطہ کے شہری پاکستان بشمول آزاد ممالک کے شہریوں جیسا درجہ سے سرفراز ہو گئے ہیں یہ وقعتا قابل رشک تاریخ ساز کامیابی ہے جسکا اسمان میاں نواز شریف، شاہد خاقان عباسی ہیں تو چاند راجہ فاروق حیدر اور انکی ٹیم کے تمام ارکان ستارے ہیں قومی اداروں پارلیمنٹ حکومت پاکستان کابینہ دفاع خارجہ خزانہ سمیت اسٹیبلشمنٹ نے سورج کیطرح روشنی کی حرارت فراہم کرتے ہوئے ملت پاکستان کے جذبات یکجہتی کا حق ادا کردیا ہے وزیراعظم پاکستان کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد نئے سیکرٹری کشمیرافیئرز اکبر درانی، چیف سیکرٹری میاں وحید الدین، سابق چیف سیکرٹری اعجازمنیر، ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنرل فرحت علی میر، ایڈیشنل سیکرٹری ترقیات ڈاکٹر آصف شاہ، سیکرٹری قانون ارشاد قریشی سمیت شامل تمام کرداروں کا باترتیب کام یاد گار حیثیت اختیار کرگیا ہے جسکے حوالے سے جاری کشمکش میں آخری چار دن خصوصاً 31 مئی کا دن اور شب کے اتار چڑھا ؤ دریا نیلم میں ڈوب جانے والے شخص کے حالات سے مختلف نہ تھے جسکے یقینی ڈوب جانے کے امکانات میں کنارے لگ جائے تو معجزہ ہوتا ہے، ایسا ہی ہوا ہے اپنی حکومت کے آخری چار گھنٹوں میں بطور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنی کابینہ کا اجلاس بلا کر جاوید میاں داد کے طرح آخری بال پر چھکا لگا کر ساری قوم کی رکی سانسوں کو جیت کے نعرے کے ساتھ سجدہ شکر میں بدل دیا تھا اور اس جیت کیلئے مچھلی کی طرح بغیر پانی کے تڑپنے والے فاروق حیدر نے شاہد آفریدی کیطرح ناقابل یقین رسک لیکر تیرہویں ترمیم کو ورلڈ کپ جیسا اعزاز بنا دیا ہے اس سارے عرصے میں مظفرآباد دستور سازایوان کے اندر باہر سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق کا سب ٹھیک ہے جیسا اعتماد کا ماحول قائم رکھنا سپیکر شاہ غلام قادر سمیت وزراء ممبران پارلیمانی پارٹی کا عزم استقامت سے انتظار کرتے رہنا بڑی بات ہے تاہم ایوان صدر کاخزاں سے پہلے ہی بہار والے درخت کی طرف بلبل جیسے کمزور عمل دخل نے ثابت کردیا ہے سیاستدان کی جگہ سیاستدان کو ہی ہونا چاہیے جہاں سردار خالد ابراہیم، چوہدری طارق فاروق شاہ، غلام قادر کو ہونا چاہیے تھا راجہ قیوم، نجیب نقی، محمد عزیز بھی اہلیت رکھتے تھے یکم جون کو مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کا سارے عمل کو پوشیدہ رکھ کر آئینی ترامیم کے مسودے کو سایہ نہ پڑنے جیسا طرز عمل کو نا پسندیدہ قرار دینا اور صوبہ بنانے کی بو آنے کا اظہار سابق وزیراعظم سردار عتیق، اپوزیشن لیڈر چوہدری یاسین، عبدالماجد خان کی منطق معنی خیز ضرور ہے جنکے نقطہ نظر کی انکے تحفظات کے حوالے اہمیت بنتی ہے اپنے اپنے فورم پر اچھی بحث با مقصد مکالمہ تعمیر ی حیثیت رکھتا ہے فعال اپوزیشن اچھی حکومت کا لازمی ستون ہے مگر ایوان کے باہر بحث برائے بحث تنقید برائے تنقید بے وزن عادت ہے کشمیری مہاجرین مقیم پاکستان کی 12 نشستوں کے حق میں دلائل ہوں یا اختلاف رائے ہو جب بطور کشمیری رائے شماری کے تناظر میں ان کو اپنا حصہ کہتے ہیں تو ان کی نشستوں کو ہوا میں رکھنا دو عملی تھا جن کو آئینی تحفظ دے کر تضاد ختم کیا گیا ہے ان سے منسلک آزاد کشمیرکی آبادی جتنے نسل در نسل کشمیری ہوں یا بیرون ملک سبز پاسپورٹ پر تارکین وطن ہوں آزاد کشمیر کے کوٹہ کے علاوہ بحیثیت پاکستانی ملک کی پارلیمنٹ صوبائی علاقائی اسمبلیوں حکومتوں، افواج سمیت تمام اداروں میں بڑے بڑے منصبوں سے لیکر عام نوعیت کی ذمہ داریوں پر بیٹھے ہوں سیاست تجارت سمیت ہر شعبہ زندگی میں نظر آتے ہیں ان کشمیریوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے کیا آپ ان سب کو آزاد کشمیر میں لا کر ان کے مقام حیثیت سہولیات سمیت وہ سب کچھ دے سکتے ہیں جو ان کے پاس ہے آپ تو کبروں پر جھکڑا کرتے ہیں، گلگت بلتستان کے عوام اپنے ایمان کی طرح صوبے کے مطالبے کے حامی ہیں مگر ان کو حکومت پاکستان نے کہا 15 لاکھ کی آبادی پر صوبہ نہیں بنایا جا سکتا ہے البتہ فاٹا کی طرح صوبہ کے پی کے میں ضم کرکے قومی اسمبلی میں تین صوبائی اسمبلی میں چھ نشستوں پر نمائندگی دی جا ئی جا سکتی ہے دونوں خطوں کی آئینی اصلاحات میں اقوام متحدہ کی کشمیری پر قراردادوں کے مطابق حق خودرادیت کی حساسیت کا تحفظ برقرار رکھا گیا ہے اگر 28 ہزار مربع میل والے گلگت بلتستان کو سی پیک کے باوجود صوبہ نہیں بنایا جارہا ہے تو چار ہزار مربہ میل والے آزاد کشمیر کو صوبہ بنا کر پاکستان کے ہر ضلع کو صوبہ بنوانے کی تحریکوں کے دروازے کھولے جا سکتے ہیں یہاں اےئر پورٹ بنانے کیلئے پی آئی اے پٹری بچھانے کیلئے ریلوے اسی طرح کے دیگر امور پر روک کر عوام کو سہولیات سے محروم رکھنا جائز ہے نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں بلوچ پٹھانوں کو نکالا گیا تو بلوچستان اسمبلی میں بختون خواہ ملی پارٹی نے تحریک التواء پیش کی ہمارے شہریوں کو تنگ کیا جاتا ہے پھر یہاں کشمیریوں کا کیا کام ہے جو واپس ہوگئی مگر کشمیر کونسل کے چند ملازموں اور غیر حقیقت پسندانہ باتوں کا بھوت خطہ کے عوام سے دوستی نہیں دشمنی ہے حکومت آزاد کشمیر نے بہت کچھ حاصل کیا ہے دیا کچھ نہیں ہے مقبوضہ کشمیر کی قیادت عوام کی جگہ آپ سب بھی ہوتے تو حکومت پاکستان کی سطح پر رابطے، تعلق کو ترجیح دیتے دو انچ مسجد حائل نہ ہونے دیتے مصور کے شاہکار مجسمہ کی ہزاروں خوبیوں پر توجہ دینی چاہیے ایک دو خامیوں پر نقطہ چینی کرکے مکھی نہ بنا جائے اس آئینی نو نے آزاد کشمیر کو کنواں کے مینڈک والے قحط سے نکال کر عملی دنیا کے سمندر کی طرف راستہ دے دیا ہے جس پر چلتے ہوئے اپنی اہلیت صلاحیت کو ثابت کرنا ہوگا آپ کو بطور سرکاری مشینر ی یہ حال ہے یکم جون کو مشترکہ اجلاس میں افطار کا وقت قریب آ جانے کے باوجود سارے ڈیوٹی پر معمور پولیس اہلکاروں، ڈرائیورز، سٹاف ممبران، پولیٹکل ورکرز کیلئے دو کھجوریں، ٹھنڈے پانی کا انتظام نہیں کر سکتے ہیں یہ مجموعی معاشرتی چہرہ ہے جس کے باعث خود کو درجہ بہ درجہ دیوتا اور باقی سب کو اپنی تعریفی پوجا کا حامل سمجھنے والوں کو اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے، آخر میں سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود کو آئینی کشمکش میں حکومت کے ساتھ دو ٹوک انداز میں حوصلے بڑھانے کے کردار پر سلام نہ پیش کرنا ناانصافی ہے ان سمیت سب لوگ مبارکباد کے حقدار ہیں۔