مسلسل اور کئی دہائیوں تک لکھتے چلا جانا خو داپنے آپ میں کوئی قدر نہیں رکھتا۔
آپ کچھ باتوں کے عادی ہوجاتے ہیں، انھیں دہائیوں تک اور کئی بار آخری سانس تک انجام دیے چلے جاتے ہیں یعنی دہراتے چلے جاتے ہیں۔ اسے آدمی کی استقامت نہیں کہہ سکتے۔
عادت اور استقامت میں فرق ہے۔
عادت میں ایک قسم کا میکانکی جبر ہے، جب کہ استقامت اپنی اصل میں جبر کے خلاف کھڑے ہونے اور اس کے نتائج قبول کرنے کانام ہے۔
عادت انجام نہ دی جائے تو وہی بے چینی ہوتی ہے جو کسی نشے کے عادی کو ہوتی ہے۔
نشے کی بے چینی اور تخلیقی بے چینی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
نشے میں تسکین کے سوا کچھ اہم نہیں ہوتا، تسکین بھی یکسر ذاتی و عارضی، خواہ اس میں کتنا کچھ داؤ پر لگ جائے۔
بعض لوگ لکھنے کو نشہ کہتے بھی ہیں جن کے لیے لکھنا نشہ بن جاتا ہے، ان کی بلا سے خود ادب داؤپر لگ جائے۔
تخلیقی بے چینی میں بھی بلاشبہ تسکینِ ذات کا پہلو موجود ہوتا ہے اور وہ سب سے اہم بھی ہو جایا کرتا ہے اور اس میں بھی کچھ داؤ پر بھی لگ سکتا ہے، مگر وہ ادب نہیں ہوتا، ادیب کی مقبولیت وشہرت داؤ پر لگ سکتی ہے، اس کی جسارت، تجربے اور انحراف کے سبب۔
کئی لوگ اس لیے لکھتے چلے جاتے ہیں کہ و ہ ایک خوف کا شکار ہوتے ہیں۔
انھیں یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر وہ نہیں لکھیں گے تو ادبی معاشرہ ان کی رکنیت معطل کردے گا اور وہ صرف گم نام ہی نہیں ہوں گے کئی مراعات سے بھی محروم ہوجائیں گے۔
وہ جانتے ہیں کہ ایک ادبی معاشرے کی مراعات معمولی نہیں ہیں! توجہ، شہرت، ذکراذکار، تبصرے، مقالے ہی نہیں، اعزاز، خطاب اور سٹیج کی غیر معمولی طاقت بھی۔
ان مراعات کے سلسلے میں ان کی حساسیت، خود ادب کے ضمن میں ان کی حساسیت سے بڑھ جایا کرتی ہے۔
وہ اس ادبی معاشرے میں اپنے شناختی کارڈ کو ایکسپائر، ہونے سے بچانے کے لیے لکھتے چلے جاتے ہیں۔
حالاں کہ جس چشمے سے، ان کے قلم میں سیاہی آیا کرتی تھی، وہ مدتوں پہلے خشک ہو چکا ہوتا ہے۔ کچھ تو اتنے بے توفیق ہوتے ہیں کہ خشک چشمے کے کنارے، کا تجربہ بھی بیان نہیں کر پاتے، بس اپنے لکھنے کی مہارت کا اظہار کرتے ہیں۔
لکھنے کی مہارت، مسلسل مطالعے اور مشق سے، کسی کو بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ اس کا تخلیقی رَو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مہارت، پہلے سے موجود چیزوں پر قدرت اور انھیں بروے کار لانے کا نام ہے۔ یعنی پہلے سےموجود اسالیبِ اظہار اور بیان کا علم اور اسے کام میں لانے کی مسلسل کوشش۔
تخلیقی رَو، نئی، ان جانی چیزوں تک، بے ساختہ انداز میں رسائی ہے۔
تاہم کبھی کبھی مسلسل اور کئی دہائیوں تک لکھتے چلے جانا، ایک قدر کا حامل ہوتا ہے۔ اس وقت جب لکھنے والا، ہربار ایک نیا منطقہ دریافت کرلیتا ہےا ور اس میں قدم رکھنے کی جسارت سے محروم نہیں ہوتا۔
وہ ادبی معاشرے میں اپنی رکنیت کے سلسلے میں، نہ صرف کسی خوف کا شکار نہیں ہوتا، بلکہ اس پر بھی آمادہ رہتا ہے کہ اس کی کسی تحریر سے عام معاشرہ یا ادبی معاشرہ صدمے سے دو چار ہو یا برافروختہ ہو۔
وہ ادبی معاشرے کی مراعات سے محرومی سے خوف زدہ نہیں ہوتا۔ اس کی حساسیت، مراعات کے بجائے، خود ادب اور اسے پوری سچائی سے تخلیق کرنے کے لیے ہوتی ہے۔
وہ ادبی معاشرے سے اپنی جلاوطنی کا سامنا کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے۔
یہ حوصلہ بلاوجہ پیدا نہیں ہوتا۔
اسے یقین ہوتا ہے کہ اگر اسے ادبی معاشرہ جلاوطن کردے تو اس کے پاس ایک جاے پناہ موجود ہے۔
اس کی اپنی تحریر، اس کا گھر بن سکتی ہے، ایک ایسا گھر جہاں اقامت کے حقوق اس سے کوئی ہتھیا نہیں سکتا اور کوئی اسے جلاوطن نہیں کرسکتا۔
اس کے لکھنے کو عادت پر نہیں، استقامت پر محمول کیا جانا چاہیے۔
عادت عام ہے، استقامت خال خال ہے!