1. ہوم
  2. کالمز
  3. رحمت عزیز خان
  4. سول سروس میں اصلاحات کا آغاز

سول سروس میں اصلاحات کا آغاز

پاکستان میں بیوروکریسی یا سول سروس کا نظام نوآبادیاتی ورثے کا تسلسل ہے جس کی بنیاد برطانوی راج کے دور میں رکھی گئی تھی۔ 1947 میں آزادی کے بعد اگرچہ ریاست نے اپنے نظام حکومت کو آزادانہ طور پر چلانے کی کوشش کی، لیکن سول سروس کا بنیادی ڈھانچہ کم و بیش اسی پرانا رہا۔ 1973 میں متعارف کردہ سول سروس ریفارمز نے ایک اہم موڑ ضرور فراہم کیا ہے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نظام فرسودگی، سیاسی مداخلت، میرٹ کی پامالی اور کارکردگی کی کمی جیسے سنگین مسائل کا شکار ہوگیا۔

ایک خوش آئند خبر یہ ہے کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی قیادت میں حالیہ سول سروسز ریفارم کمیٹی کا قیام اور اس کے اجلاس کی کارروائی، بلاشبہ ایک نیک شگون ہے۔ وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں محمد شہباز شریف کی ہدایت پر بنائی گئی یہ کمیٹی اگر حقیقی اصلاحات کی طرف گامزن رہے تو یہ پاکستان کے انتظامی ڈھانچے میں انقلابی تبدیلیاں لانے کا سبب بن سکتی ہے۔

پاکستان کی ابتدائی دہائیوں میں سول سروس ایک مؤثر اور مضبوط ادارہ کے طور مشہور تھا جو ریاستی استحکام اور پالیسی کے تسلسل میں اہم کردار ادا کرتی تھی۔ مگر رفتہ رفتہ سیاسی مداخلت، اقرباپروری اور استعداد کار کی کمی نے اس نظام کو بالکل کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ 2001 میں سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بھی سول سروس رولز میں اصلاحات کی کوشش ہوئی مگر وہ جزوی اور غیر جامع ثابت ہوئیں۔

وفاقی وزیر احسن اقبال کی زیر صدارت اجلاس میں جن خاص نکات پر توجہ دی گئی وہ بنیادی طور پر قابل ستائش ہیں جس میں سرفہرست کلسٹر بیسڈ سسٹم کی تجویز شامل ہے۔

موجودہ جنرلائزڈ نظام میں افسران کو کسی بھی محکمے میں تعینات کر دیا جاتا ہے خواہ ان کا پس منظر اس سے مطابقت رکھتا ہو یا نہیں۔ کلسٹر بیسڈ سسٹم اس مسئلے کا ایک مؤثر حل ہو سکتا ہے، بشرطیکہ اس پر عملدرآمد دیانت داری اور مہارت سے کیا جائے۔

اجلاس میں پیشہ ور ماہرین کی کمی کا اعتراف بھی کیا گیا۔ تکنیکی اور سائنسی وزارتوں میں ماہرین کی کمی ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے انجینئرز، آئی ٹی ماہرین اور سائنسی شعبے کے افراد کی شمولیت ناگزیر ہے۔

سول سروس میں کارپوریٹ سیکٹر کی حکمت عملیاں متعارف کروانا کارکردگی کے پیمانوں کو بہتر بنا سکتا ہے، لیکن اس کا نفاذ پاکستانی سماج کے مخصوص پس منظر کو مدنظر رکھ کر کیا جانا چاہیے۔

اجلاس میں پیشہ زبان کی رکاوٹ کے خاتمے کی بھی بات کی گئی ہے۔ انگریزی زبان کو سی ایس ایس امتحانات میں لازمی قرار دینا کئی باصلاحیت امیدواروں کے لیے رکاوٹ ہے۔ اردو کو لازمی مضمون کے طور پر شامل کرنے کی تجویز نہ صرف زبان کے مسئلے کو حل کرے گی بلکہ قومی تشخص کے فروغ میں بھی معاون ہوگی۔

سول سروس رولز میں 1973 کے ماڈل پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ اب 1973 کا ماڈل جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں رہا۔ موجودہ دور میں شفافیت، عوامی احتساب، کارکردگی پر مبنی ترقی اور شہری سہولیات کی فراہمی ہی کسی نظام کی کامیابی کا پیمانہ ہے۔

اگر حکومت واقعی سول سروس رولز میں اصلاحات لانا چاہتی ہے تو اس خاکسار کے مرتب کردہ چند سفارشات پر عمل کرنے کی زحمت گوارا کرے تو یہ پاکستان کے مستقبل کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔

اصلاحات کو صرف اجلاسوں اور اعلانات تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ ان کو قانونی حیثیت دے کر مستقل تحفظ دیا جائے۔

سیاسی مداخلت کا باکل خاتمہ کیا جائے۔ تقرری، تبادلے اور ترقی میں سیاسی دباؤ اور سفارش کا خاتمہ اصلاحات کا بنیادی تقاضا ہے۔

سول سروس کے تربیتی ادارے جیسے CSA کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور ہر شعبے کے لیے الگ تربیتی ماڈیولز تشکیل دیے جائیں۔

افسران کی ترقی صرف سینیارٹی کے بجائے کارکردگی کی بنیاد پر ہو اور ناقص کارکردگی، کرپشن، اقربا پروری، سفارش اور رشوت پر سزائیں بھی واضح ہوں۔

پسماندہ علاقوں، خواتین اور اقلیتوں کی شمولیت میں اضافہ کیا جائے تاکہ سول سروس قومی سطح پر نمائندگی کی آئینہ دار بن سکے۔

پاکستان کی سول سروس میں ہمہ گیر اصلاحات کی موجودہ کوششیں، اگر خلوص نیت، سیاسی عزم اور عملدرآمد کی حکمت عملی سے کی جائیں، تو یہ ملک کے انتظامی نظام میں نئی روح پھونک سکتی ہیں۔ پروفیسر احسن اقبال کا وژن، اگر عملی جامہ پہن لے تو ایک جدید، فعال، شفاف اور عوام دوست بیوروکریسی کا قیام ممکن ہے جو پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت بن سکتی ہے۔