ساعت وصل میں بس، یہی نیکو کاری ہے
کار محبت اور بڑھاؤ، بہت بے قراری ہے
اک لمحہ ہجر کبھی، نصیب ہی نہیں ہوا
بدن سے مکالمہ میں، زندگی گذاری ہے
کمر کی یہ وادیاں، سریں کی وہ گھاٹیاں
سینے کی اٹھان بھی، دیکھو کتنی بھاری ہے
سمن بر، سرو قد، چہرہ گلگوں، آنکھ کنول
بدن کا جمال ہے یا پھولوں کی کیاری ہے
وصل کامل ہو عطأ، اےمیرے لذت کوش
آخری مراحل کی، ضرب بہت کاری ہے
رات کی باہوں میں، پراسرار لمحے ہیں
کبھی سر بسجود ہوں، کبھی گریہ زاری ہے
صحیفہ حسن پڑھ کر، بھٹک گیا ہے زاہد
لوح بدن کی عبارت، انوکھی و نیاری ہے