اپنی زندگی کا ایک حصہ پاکستان گزارنے کے بعد بسلسلہِ روزگار مچھے U.A.E آنا ہوا بیگم صاحیہ کو بھی ساتھ لے آیا لیکن کچھ عرصہ بعد اُنھیں واپس جانا پڑا اب پچھلے قریباً ایک ما ہ سے میں ایسی زندگی گزار رہا ہوں جس کا میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا یعنی ایک ورکنگ اینڈ ہاؤس ہولڈ آدمی کی لائف،اپنے کپڑے دھونا ،گھر کی صفائی کرنا،کپڑے استری کرنا، بازار سے خریداری، یہاں تک کے کھانا بھی مجھے خود ہی پکانا پڑتا ہے میں اب تک سبزیاں دالیں گوشت سب کچھ ہی پکا چکا ہوں یا یوں کہ لیجے پکانے کی کوشش کر چکا ہوں تو جناب میری یہ تحریر اُن سب پردیسی بھائیوں کے نام ہے جو پردیس میں اکیلے زندگی گزار رہے ہیں اور کھانا بھی خود بنا تے ہیں۔
اپنی کوکنگ کے حوالے سے دو باتیں مجھے اکثر یاد آتیں ہیں ایک تو ہمارے مایہ ناز کامیڈی کنگ جناب امانُ اللہ صاحب کی اُنہوں نے ڈرامے میں ایک لڑکی سے کہا کہ بنو تیری آنکھیں پیاری ہیں تیرا ناک بھی پیارا ہے تیرے دانت موتیوں جیسے تیرے بال بھی پیارے ہیں لیکن جب ان سب چیزوں کو اکٹھا کیا جائے تو شکل پیاری نہیں بنتی ،بس یہی حال میری کوکنگ کا بھی ہے کہ نمک بھی وہی ہے، مرچیں بھی ہیں ہلدی بھی ہے ،گرم مصالحہ بھی ہے بس نہیں ہے تو ذائقہ نہیں ہے۔ میرے ایک بہنوئی جو پیشے سے ڈاکٹر ہیں میں نے اُنہی کے منہ سے سنا ہے کہ وہ بہت اچھے کُک بھی ہیں جب سے رشتے داری ہوئی ہے تب سے لے کے آج تک میں صرف اُن کے ہاتھ کی چائے یا ٹماٹر والا آملیٹ ہی کھا سکا ہوں، اب بھی کبھی واٹس اپ پہ کوئی پکے ہوئے کھانے کا پکچر مسیج بہن کی طرف سے آ جاتا ہے made by him کے الفاظ کے ساتھ ، لیکن اُن کی ساری کُوکنگ میری غیر موجودگی میں ہی کیوں ہوتی ہے یہ تو خیر آپ سب جان ہی گئے ہوں گے۔ میری رہائش کے قریب ایک پاکستانی ہوٹل بھی ہے جس کا نام شاہی دسترخوان ہے جب کبھی بھی بوجہ تھکاوٹ یا سستی میں وہا ں سے کھانا کھاتا ہوں تومجھے قدرے تسلی ہوتی ہے کہ میری کوکنگ بھی شاہی کھانوں سے کم نہیں ، ایک دفعہ میری ملاقات شاہی دسترخوان کے خانسامہ سے ہوئی مین نے مزاحً پوچھا بھائی اتنے مزیدار کھانے کیسے بنا لیتے ہو تو اُس نے سینہ تان کے جواب دیا ہم خاندانی خانسامہ ہیں، ویسے مجھے اُس کی کوکنگ تو کبھی پسند نہیں آئی تھی البتہ اُس کی خود اعتمادی کافی پسند آئی۔
خیر جی بات ہو رہی تھی میری کوکنگ کے حوالے سے دوسری بات جو اکژ مجھے یاد آتی ہے وہ یہ کہ میں نے بچپن میں اُردو کی کتاب میں ایک کہانی پڑہی تھی جس میں ایک کمہار گیلی مٹی لے کر ہاتھوں سے باکمال مٹی کے برتن بناتا تھا اور وہ کہانی یہاں ختم ہوتی تھی کہ جادو نہ تو مٹی میں ہے نہ اُس گھومنے والی چکی میں جی ہاں بلکل اُسی طرح اچھے کھانوں کا راز بھی یہی ہے کہ زائقہ نہ تو مصالحوں میں نہ گوشت سبزی دال میں،ذائقہ تو پکانے والے کے ہاتھ میں ہے۔