میری زندگی کا پہلا کالم زیر تعمیر تھا یعنی میں کئی دنوں سے ایک عدد کالم لکھنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھا، کالم تھا کے سر پاؤں ہی نہیں پکڑا رہا تھا اور میں تھا کہ ہار ماننے کو تیار ہی نہیں تھا اچانک مجھے ایک فضول خیال آیا کے پتا نہیں کالم لکھا بھی جا سکے یا نہیں کیوں نہ کالم لکھنے کا رعب خاندان والو ں پہ ڈالا جائے اور داد حاصل کی جائے تو سوچنا اب یہ تھا کے میرے رائٹر ہونے کے دبدبے میں سب سے پہلے کسے لایا جائے اتفاق سے میری بڑی بہن کا فون آیا میں نے باتوں باتوں میں زکر کیا کے میں کالم لکھ رہا ہوں تو اُنہوں نے یقین نہ آنے والے انداز میں پوچھا کیا لکھ رہے ہو؟ میں نے جواب دیا کالم لکھ رہا ہوں وہ بولی بھائی اپنا نام تو صحیح طریقے سے لکھ نہیں سکتے کالم کیا لکھو گئے، اصولاً تو میری دل شکنی کے لئے اتنا ہی کافی ہونا چاہیے تھا لیکن میں اپنی ڈھٹائی کا زکر کالم کے شروع میں کر چکا ہوں، میرا چھوٹا بھائی جو ملک سے باہر رہائش پزیر ہے چھٹیوں میں پاکستان آیا ہوا تھا میں جان بوجھ کر اُس کے سامنے کاغذ قلم لے کر بیٹھ گیا تاکہ اُس کا دھیان میرے پہ پڑے تو حسب توقع اُس نے مجھے کچھ لکھتا دیکھا توپوچھا بھائی کیا لکھ رہے ہو؟ میں نے بڑے شاہانہ انداز میں لکھتے لکھتے جواب دیا کالم لکھ رہا ہوں، اس نامعقول نے بھی دوبارہ پوچھا کیا لکھ رہے ہو؟ میں نے سر اُٹھا کر اُسے دیکھا اور نہ چاہتے ہوئے بھی انتہائی تحمل سے جواب دیا کہ کالم لکھ رہا ہوں تو اُس نے یقینن میری بات پہ دھیان دیے بغیر ہی کہا، ہاں اچھا ہے کبھی کبھی یہ کام بھی کر لبنا چاہیے تو گویا اُس گدھے کی نظر میں مَیں کسی میراتھن ریس میں حصہ لے رہا تھا جو کبھی کبھی دوڑ بھی لینا چاہے۔
اب میری چھوٹی بہن کا بھی سن لیں جو شادی کے بعد سے ایک ڈاکٹرز کالونی میں رہائش پذیر ہے اور میں پہلے بتاتا چلوں کے وہ کالونی پاگلوں کے ڈاکٹرز کی بالکل نہیں ہے اُس سے بھی میرا رابطہ فون پر ہی ہوا ہمت کر کے میں نے اُسے بھی بتایا کے میں کالم نویس بن گیا ہوں اور میرا پہلا کالم جلد شائع ہو رہا ہے شکر ہے اُس نے میرے سے دوبارہ نہیں پوچھا کہ میں کیا لکھ رہا ہوں بلکے اُس نے جو پوچھا وہ میرے لیے تھوڑا حیران کُن تھا، اُس نے پوچھا بھائی کالم میں میرا زکر کیا ہے اس دفعہ میرے منہ سے سوالیہ جملہ نکلا کیا؟ اُس نے اپنا سوال دہرایا میں نے ہمیشہ کی طرح مجبورْا اپنا جواب دہرایا کہ میں کالم لکھ رہا ہوں اپنے خاندان پر کوئی فیچر فلم نہیں لکھ رہا جوکسی فیملی میمبر کا زکر کروں تو اُس نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے تقریبُا بددُعا دینے کے انداز میں کہا کہ اگر میں اُس کا زکر کروں گا تو کالم شائع ہو گا ورنہ نہیں ہو گا، تو یہ لیجیے جناب مجھے اُس کالم کے شائع نہ ہونے کی پہلی دھمکی بھی مل چکی تھی جو ابھی تک لکھا بھی نہیں گیا تھا، آپ لوگوں کے خیال میں اب تک مجھے کالم نگاری سے توبہ کر لینی چاہیے تھی؟ لیکن جناب میں کالم کے شروع میں اپنی ڈھٹائی کا ذکر کر چکا ہوں، خیر اب تک مجھے یہ اندازہ تو ہو ہی گیا تھا کے خاندان کے بڑوں پہ اپنا امپریشن ڈالنا خود کو ڈپریشن میں ڈالنے کے برابر ہے سو اب باری آئی چھوٹوں کی چھوٹوں سے مُراد وہ بڑے بچے جونہ صرف باآسانی میری بات کو سمجھ سکیں بلکہ میری مہانتا کا دم بھی بھریں خیر جی یہ موقع بھی مجھے کچھ ہی دنوں بعد مل گیا جب سب خاندان والے دعوت میں اکھٹے ہوئے میں نے موقع ملنے پر بچوں کو جمع کیا اور بتایا کے میں ایک عدد کالم لکھ رہا ہوں اُنہوں نے اپنے والدین کے بلکل برعکس میرے سے پہلا سوال یہ کیا کہ کالم ہوتا کیا ہے؟ اب میرے جیسا رائٹر جس کا پہلا خیالی کالم ابھی زیر تعمیر تھا وہ بھلا کالم کی تشریح کیا کرتا کیسے کرتا؟ تو میں نے وہاں سے چپ کرکے کھسکنے میں ہی عزت جانی، غرض یہ کہہ کالم کے چکر میں عزت افزائی کیا ہوتی اُلٹا جگ ہنسائی کافی ہوئی ۔۔ جی نہیں اب میں اتنا ڈھیٹ بھی نہیں تھا کہ اس سب کے بعد بھی کالم نگاری کا سوچتا۔