اخبار کے دفتر کو خبروں کی دوکان اور اخبار کے ایڈیٹر کو خبروں کی کان کہا جاتا ہے۔ ایڈیٹری چاہے فنون لطیفہ میں شامل ہو یا نہ ہو مگر اخبار نویسی فنون لطیفہ میں ضرور شامل ہے۔ ایڈیٹر کے دیکھنے میں اور ہم جیسے عام لوگوں کے دیکھنے میں یہ فرق ہے کہ ہم آنکھیں کھول کر دیکھتے ہیں۔ ایڈیٹر کی آنکھیں کھلی ہوں تو اسے کچھ نظر نہیں آتا۔ آنکھیں بند کرلے تو پھر پوری کائنات اس کی نظروں کے سامنے ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ دور کی کوڑی لاتا ہے کبھی قریب کی کوڑی نہیں لاتا اس لئے کہ اس کی دور کی نظر صحیح ہوتی ہے۔ ایڈیٹرکی بصارت عینک طلب ہوتی ہے اور بصیرت غور طلب۔ وہ دماغ کی ہانڈی میں ہر وقت غور و فکر کی کھچڑی پکاتا رہتا ہے۔ اگرچہ خود عملی سیاست نہیں کرتا مگر نظریاتی سیاست پر گہری سے بھی زیادہ نظر رکھتا ہے۔ ایڈیٹر سے یہ پوچھنا کہ تم سیاست کے رموز سمجھ سکتے ہو ایسا ہی ہے جیسے کوئی مچھلی سے یہ پوچھے کہ تم سے تیرنا آتا ہے۔ لہذا بعض لوگ اخبار کے ایڈیٹر کو نیم سیاست داں کہتے ہیں اور سیاست کے میدان میں اس کا لوہا مانتے ہیں بلکہ کہنا چاہئیے فولاد مانتے ہیں۔ سیاسی پارٹی کے ورکر بعض مرتبہ اخبار کے ایڈیٹرکو دھمکی دینے کی کوشش کرتے ہیں، بعض مرتبہ رشوت دینے کی اور بعض مرتبہ عزت دینے کی۔ اگر ایڈیٹررشوت قبول کرلے تو پھر وہ دانش ور نہیں رہتا دانش فروش بن جاتا ہے۔ اس کا کردار، گفتار اور رفتار بالکل بے کار بلکہ نا ہنجار ہوجاتا ہے۔ اس کی سوچ مائل بہ گہرائی نہیں رہتی، مائل بہ گمراہی ہوجاتی ہے۔ اخبار کے ایڈیٹر کو دھمکی دینے سے ملک کے پریس کو نا قابل تلافی یعنی ناقابل مرمت نقصان پہنچتا ہے۔ ایک با ہمت اور با ضمیر ایڈیٹرمخالفین کے حملوں کا جوانمردی سے مقابلہ کرتا ہے۔ وہ اس کی طرف پتھر پھینکتے ہیں تو اس کا جواب لفظوں کی سنگ باری سے دیتا ہے۔ ایڈیٹر کو ملک کے ہر طبقے کی ترجمانی کرنی ہوتی ہے۔ وہ روشن خیالوں کے بارے بھی لکھتا ہے، روشن جمالوں کے بارے بھی۔ عوام اس سے انتہائی خوش اور ناخوش رہتے ہیں۔ سمجھتے ہیں اس میں اچھی اور بری عادات یکجا ہوگئی ہیں۔
جس طرح صحت مندی اور تندرستی سے ڈاکڑ کا کاروبار ماند پڑجاتا ہے اسی طرح امن قائم رہنے اور غیر معمولی واقعات نہ ہونے سے ایڈیٹرکا روز گار مارا جاتا ہے چنانچہ جب بھی حالات پر امن اور معمول کے مطابق ہوں ایڈیٹر کہتا ہے میں آج کل بے کل ہوں۔ ایڈیٹرسے پوچھا جائے تمہیں گرمی کا موسم اچھا لگتا ہے، سردی کا موسم یا پیار کا موسم تو وہ جواب دے گا ’’ان تینوں میں مجھے الیکشن کا موسم زیادہ اچھا لگتا ہے کیونکہ اس موسم میں میرا اخبار خوب بکتا ہے‘‘
ایک بڑی خبر کو اہمیت نہ دینا ایڈیٹری کا سقم ہے اسی طرح ایک معمولی بات کو خبر بنادینا بھی بے خبری اور لاعلمی کی علامت ہے۔ ہمیں تو اخبار کی سیدھی سادی رپورٹنگ ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ ایسی رپورٹنگ اچھی لگتی ہے جس میں خوب نمک مرچ لگائی گئی ہو۔ ایک سادہ اخباری رپورٹر نے ایڈیٹر کی خدمت میں ایک ٹریفک حادثے کی خبر یوں پیش کی :۔
رپورٹر : طالب علم کا کار ایکسی ڈنٹ ہوگیا
ایڈیٹر : وہ کیسے ؟
رپورٹر : کار طالب علم کے اوپر سے گزر گئی
ایک اچھا رپورٹر تو گاکر میں ساگر بند کردیتا ہے۔ مورخین ماضی کی تاریخ رقم کرتے ہیں اور اخباری رپورٹر زمانہ حال کی تاریخ لکھتا ہے۔ کہتے ہیں مستقبل تبدیل کیا جاسکتا ہے مگر ماضی نہیں۔ تاریخ کی پرانی متفرق کتابیں پڑھ کر تو ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تاریخ نگاروں نے ماضی کو جتنا تبدیل کیا ہے کسی نے نہیں کیا۔
اخبار کی ایڈیٹری ایک کل وقتی مصروفیت و ذمہ داری کا کام ہے۔ ہم نے تو مصروفیت کے سبب اکثر ایڈیٹروں کی داڑھی بڑھی ہوئی دیکھی، کئی پر شبہ ہوا کہ شاید انہوں نے داڑھی رکھ لی بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سنت نبوی کی نہیں عدیم الفرصتی کی نشانی ہے۔ اخبار پیسہ کے ایڈیٹر نواب رامپور کی دعوت پر اپنی فیملی کے ہمراہ رامپور گئے تو ان کی بیوی سے پوچھا گیا کہ تمہارے شوہر سے گھوڑے پر سواری کرنا آتی ہے؟ انہوں نے جواب دیا ’’کیوں نہیں وہ تو اکثر ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتے ہیں‘‘
معیاری اخبار نکالنا تو خیر بڑی بات ہے معیاری رسالہ نکالنا بھی جان جوکھوں کا کام ہے کیونکہ رسائل کے لئے وسائل درکار ہوتے ہیں۔ اچھے اخبار کی آمدنی بھی اچھی ہوتی ہے۔ کثیر الاشاعت اخبار جنگ کی ایڈیٹری بھی بادشاہت سے کم نہیں۔ اس کے سابقہ ایڈیٹر محمود شام ایک شاعر بھی تھے مگر یار لوگوں کا کہنا ہے کہ محمود شام اتنے خوش اور خوش حال نظر آتے تھے کہ اچھا شعر کہنا انکے بس کی بات نہیں تھی۔ اچھی شاعری کے لئے ضروری ہے کہ بندے کے پاس غم، مفلوک الحالی اور غائب دماغی کا سرمایہ موجودہو۔
بعض لوگ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں اور بعض اپنی زندگی ہی میں فوت ہوجاتے ہیں۔ مرنے کے بعد زندہ رہنے والوں میں ایک نام محمد علی جوہر کا ہے جو صحافت اور سیاست کے شہسوار تھے۔ کہتے ہیں کہ ایڈیٹر اور لیڈر میں یہ فرق ہے کہ ایڈیٹر خاموش رہتا ہے اور لیڈر بولتا رہتا ہے۔ محمد علی جوہر کو بولنا انکی والدہ بی اماں نے سکھایاکہ وہ ایک بڑے مقرر ہوکر ابھرے۔ جی ہاں ماں بولنا سکھاتی ہے اور بیوی خاموش رہنا۔ کوئی خاتون اگر ایڈیٹر بن جائے تو ظاہر ہے چپ رہنے کا اصول اس پر لاگو نہیں ہوگا۔ ہم نے کچھ عرصے لاہور کے ایک جریدے میں ایک خاتون ایڈیٹر کی ماتحتی میں مترجم کے فرائض انجام دئیے تھے۔ ہم محترمہ کی شخصیت کی اچھائیوں اور چہرے کی جھائیوں پر نظر رکھتے تھے۔ ان کے جسم اور احکامات کا حدود اربعہ بہت طویل تھا۔ ان کے بولنے کی اسپیڈ 150 الفاظ فی منٹ تھی اور سننے کی اسپیڈ صفر۔ کانوں کا مصرف صرف بندے پہننا تھا۔ پتہ نہیں یہ ان کے تن کا قصور تھا یا من کا فتور کہ ہم زیادہ عرصہ ان کے جریدے میں ٹک نہ سکے۔
علامہ نیاز فتح پوری مرحوم کا ایک پرانا پرچہ ’’نگار‘‘ ہماری نظر سے گزرا جس میں قیمت کے کالم میں لکھا تھا ’’اس رسالے کو خریدنے کا جرمانہ چھ آنے ہے‘‘ میں نے نیو جرسی میں مقیم اپنے ایک دوست سے کہا ’’امریکی اردو اخبارات کے ایڈیٹر صاحبان اتنے سخی ہیں کہ کمیونٹی کے فائدے کیلئے مفت اخبار بانٹتے ہیں۔ کہنے لگے ’’ فائدے کا کیا سوال، یہاں ردی پیپر والے کب آتے ہیں‘‘ صاحب مفت کی سخاوت ہمیں بھی پسند نہیں۔ کئی جگہ ہم نے اردو اخبارات کو بطور دستر خوان استعمال ہوتے دیکھا ہے۔ مفت اخبارات سے یہ ہوا کہ اخبار کی گردش بند ہوگئی ورنہ پاکستان میں تو یہ ہوتا تھا کہ ایک گھر میں پڑھ لیا تو دوسرے گھر میں دے دیا پھر تیسرے میں۔ امریکہ میں یہ ہوتا ہے کہ اسٹور سے ایک ہی اخبار کی تین کاپیاں اٹھالیں کہ ایک میں پڑھوں گا ایک میرا ماموں ایک میرا چاچا۔
اخبار پڑھنے کے بھی لوگوں کے اپنے اپنے طریقے ہیں۔ بعض لوگ صرف ضرورت رشتہ کے اشتہارات پڑھتے ہیں۔ بعض صرف سرخیاں دیکھتے ہیں۔ جو شخص اخبار کی خبرپڑھنے کے بعد اس کی سرخی دیکھے اس کی مثال ایسی ہے گویا عورت کی ٹانگیں پہلے دیکھتا ہے چہرہ بعد میں۔ بعض کو خبریں سنانے کا شوق ہوتا ہے۔ افسوسناک خبروں پر سامنے والے کو تسلی بھی دیتے رہتے ہیں مگر غیر تسلی بخش طریقے سے۔
ایڈیٹرجب بوڑھا ہوجاتا ہے تو اسے آنکھوں سے کم دکھائی دیتا ہے اور عقل سے کم سجھائی۔ عام طور پر ایسا ایڈیٹر کامیاب رہتا ہے جو بچپن میں یتیم، جوانی میں رنڈوا اور بڑہاپے میں ریٹائرڈہوجائے۔ ایڈیٹر جب ریٹائرڈ ہوجاتا ہے تو اپنے کیفر کردار تک پہنچ جاتا ہے۔