قارئین کرام ، میری کوشش ہوتی ہے کہ میں اپنے کالموں میں نوک قلم کی تاثیریں، مشکبو تحریریں اور شرارتی لکیریں بکھیرتا رہوں اور آپ کے غموں کی یلغار پر مسکراہٹوں کے برچھے مارتا رہوں، لیکن کبھی میرا جی چاہتا ہے پاکستان کے سیاسی منظر نامے کی تصویر بھی آپ کو ارسال کردوں۔ ایسے موقع پر ظاہر ہے تحریرکو سنجیدگی کے قالب میں ڈھالنا پڑتا ہے۔
صدیق سالک اپنی کتاب ’’تا دم تحریر‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’بیو رو کریسی ایک بھرا بھرایا پستول ہے جسے حکومت وقت جب چاہے اور جس وقت چاہے فائر کرسکتی ہے۔ اگر وہ خود پستول کی آواز سے ڈرتی ہے تو پھر بھرا بھرایا پستول اگلی حکومت کے حوالے کردیتی ہے۔ پستول کے استعارے پر غور کرتے ہوئے مزید غور کیجئے کہ ایک باوردی بیوروکریسی بھی ہوتی ہے‘‘
صدیق سالک کی جامع ، حقیقت حال اور معنی خیز اشاریت پر غور کرتا ہوں تو اقوام متحدہ مجھے ایک ایسا غیر موثر، غیر منصفانہ بلکہ ظالمانہ عالمی ادارہ نظر آتا ہے جو بڑی طاقتوں کے لئے ایک بین الاقوامی بیوروکرسی کا کردار انجام دے رہا ہے۔ماضی قریب میں اس کی مثال آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے کہ اقوام متحدہ نے امریکہ کو افغانستان اور عراق میں ظلم کے پہاڑڈھانے کا اجازت نامہ دے دیا ۔یا دوسرے لفظوں میں آپ یوں کہئیے کہ ایک بڑی طاقت نے ایک چھوٹے ملک پرحملہ کیا اور وہاں جاکر تباہی و بربادی کا بازار گرم کیا۔ اس حملے کا جو جواز بنایا گیا تھا وہ قطعی جھوٹا اور غلط ثابت ہوا۔ اس کے باوجود امن و آشتی اور انصاف کا عالمی ادارہ بڑی طاقت کے احتساب کا روادار نہیں۔ دوسری حالیہ مثال برما کی آج ہمارے سامنے ہے جہاں ایک مسلم اقلیت پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے گئے ۔ عورتوں اور بچوں کو بھی کیڑوں مکوڑوں کی طرح مارا گیا۔ ہزاروں معصوم افراد کو زندہ جلادیا گیا۔ بڑی طاقتیں یہ سب تماشہ دیکھتی رہیں۔ یو این او نے اظہار مذمت میں چند روایتی الفاظ ادا کئے اور بس۔ ظلم کی سرکوبی کیلئے کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔ بنگلہ دیش میں آئے لاکھوں مہاجرین کی آباد کاری کا کوئی لائحہ عمل نہیں دیا گیا۔
یہ فکری، سیاسی، تہذیبی، جمہوری، فنی اور سائنسی ترقی سب کہنے کی باتیں ہیں۔ عملی طور پر آج بھی دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا اصول کارفرما ہے۔ حقوق انسانی کی تحریکیں سب بے کار ہیں۔ بلا وجہ عالمی ضمیر کا رونا رویا جاتا ہے۔ عملاً تو اس مہذب زمانے میں بھی یہی ہورہا ہے کہ سپر پاور جب چاہتی ہے کم زور ملک کی سرحدیں عبور کرلیتی ہے اور وہاں وہ گل کھلاتی ہے کہ اللہ کی پناہ ۔حالیہ مثال دیکھ لیں۔ ایک طرف پاکستان سے دوستی کا بھرم رکھا جاتا ہے۔ اسے قابل اعتماد اتحادی کا لقب دیا جاتا ہے۔ دوسرے ہی لمحے اس پر ڈرون حملے کئے جاتے ہیں۔ رات کے اندھیرے میں چوری چھپے پاکستان کی سرحد پار کی جاتی ہے اور کمانڈوز اتارے جاتے ہیں۔افغانستان ہو، عراق ہو یا پاکستان، معاصر مہذب اور ترقی یافتہ ممالک یہ سب تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔ ان کے ہونٹوں پر کوئی جنبش پیدا نہیں ہوتی، کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوتی۔ اس کے برخلاف وہ سپر پاور کے حامی اور معاون نظر آتے ہیں۔پھر صدیوں کی اس کاوش کا کیا نتیجہ اور اخلاق و تہذیب پر لکھی گئی کتابوں کا کیا حاصل؟آج کی دنیا میں یہ یہ نا انصافی دیکھ کر مذکورہ کتابیں بے دماغ لفظوں کا ملغوبہ نظر آتی ہیں۔ گویا یہ محض الماری میں سجانے کے لئے ہیں۔ عملی جدوجہد کا ان سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔پھر فرعون، نمرود اور قارون کو کوسنے سے کیا حاصل جب ہم آج کے زمانے میں بھی انہیں ستم گروں کے زیر عتاب ہیں۔ یاد رکھئیے دنیا میں علم کا بحران کبھی نہیں ہوا۔ کسی قوم کا زوال ہوا ، بربادی آئی، تباہی آئی تو عمل کے بحران سے۔
آج کیا سیاست، کیا صحافت، کیا میڈیا سب تجارت ہوکر رہ گئی ہے۔ عوام کی طلب کو مینو فیکچر کی رسد سے ملانے کا نام تجارت رکھ دیا گیا ہے۔ سیاست کرنے والے کہتے ہیں بھنگڑہ ڈالنا، نعرے بازی کرنا اور اسٹیج پر آکر اداکاری کرنا ۔ یہ سب عوام کو پسند ہے ، سو ہم کررہے ہیں۔ اگر اس سے قومی تشخص بگڑتا ہے تو بگڑے ، ہم اس کے ذمہ دار نہیں۔ اخبار چھاپنے والے کہتے ہیں عوام سنسنی خیز خبریں پڑھنا چاہتے ہیں سو ہم چھاپ رہے ہیں۔ اس سے جرائم نشونما پاتے ہیں تو ہمارا کیا قصور۔ فلم بنانے والے کہتے ہیں ، عریاں فلمیں عوام کی طلب ہیں ، سو ہم بناتے رہیں گے۔ اخلاقی و تہذیبی بگاڑ کے ہم جواب دہ نہیں۔اگر یہی بات ہے تو ہیروئین بیچنے والا قانون کی گرفت میں کیوں آتا ہے؟ وہ بھی تو عوام کی مانگ کو پورا کرنے کے لئے اپنی رسد کو آگے بڑہارہا ہے۔
غلط کام کا جواز پیدا کرنے کے لئے حسب بالا دلیل کتنی بودی ہے۔ بجائے اس کے کہ عوام کے ذوق کی سیاسی تربیت کی جاتی۔ انکے رجحانات و میلانات کو تعمیری و مثبت راستے پر لگایا جاتا۔ ان میں قومی سوجھ اور تہذیبی وقار پیدا کیا جاتا۔ ہمارے لیڈروں نے ان کے سیاسی مزاج کو گھن لگادی اور ان کے ذوق کو غلط راستے پر ڈال دیا۔ اب مزا ہی نہیں آتا اگر سیاسی جلسوں میں جوتیاں نہ چلیں اور ہوائی فائرنگ نہ ہو ۔ سنجیدہ اور غیر ہنگامہ خیز جلسوں کو ’’بے مزا‘‘ سمجھا جانے لگا ہے۔ لوگ نشتر پارک یا لیاقت باغ سے اس طرح واپس لوٹتے ہیں جیسے کوئی بور فلم دیکھنے کے بعد تماشائی سینما ہال سے نکلتے ہیں۔
انتخابات ہمارے سیاسی بگاڑ کا مداوا نہیں بلکہ اس کا ایک حصہ ہیں۔ ہر انتخابات کے بعد پارلیمنٹ میں انہیں چہروں کا ظہور اور کسی بنیادی تبدیلی کے بغیر اسی حکومتی نظام کی تکرار، معلوم ہوتا ہے الیکشن اب اپنی معنویت اور اہمیت کھورہے ہیں۔ الیکشن سے پہلے سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کہتے ہیں بس ہمیں اقتدار میں آجانے دو ۔ آپ کے مسائل کا حل ہماری حکومت کی تشکیل میں پنہاں ہے۔مگر اقتدار میں آجانے کے بعد بجائے اس کے کہ یہ نئی حکومت اپنا لائحہ عمل اور پروگرام عوام کے سامنے رکھ کر اس پر عمل پیرا ہو، ملک میں پھیلی کوتاہیوں اور برائیوں کو پچھلی حکومت کے کھاتے میں ڈال کر گویا خود بری الذمہ ہوجاتی ہے۔
اقتدار سے محروم ہارنے والی پارٹیاں موجودہ حکومت کا تختہ الٹنے اور نئے انتخابات ہونے کی آس لگائے بیٹھ جاتی ہیں:
الیکشن کا انتظار باقی ہے
اقتدار کا انتظار تھا نہ رہا
ذرا غور کیجئے، کیا آزاد عدلیہ اور فوری اور سستے انصاف کے بغیر عوام کی مشکلات کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے؟ یہ مشکلات خواہ ان کے معاشی مسائل سے متعلق ہوں یا معاشرتی مسائل سے، ہر صورت میں خود مختار عدلیہ کا قیام قوم کی اولین بنیادی ضرورت ہے۔ مگر بڑے افسوس کی بات ہے کہ نواز شریف اور انکے اہل خانہ اپنے منصب سے سبکدوش ہونے کے بعدمسلسل عدلیہ پر شب خون مارہے ہیں اور اسے تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں ۔۔۔ مشہور امریکی صحافی اور سوشل ورکر ڈاکٹر سائیبن راکر اپنی کتاب ’’سیاسی سوچیں اور قانون کی بالاتری‘‘ (مطبوعہ 1980) میں لکھتا ہے ’’سیاسی سوچوں کے اسقام اور پھر اس کی عملی تشکیل سے ریاست کی ساخت میں عیب پیدا ہوسکتا ہے مگر قانون کے عمل درآمد میں نقص سے خود ریاست کا وجود ہی خطرے میں پڑجاتا ہے۔ انتظامی امور میں بگاڑ یا کوتاہی بھی کسی حد تک قابل برداشت ہوسکتی ہے لیکن ایک صالح اور آزاد ریاست میں قانون کی بالا دستی سے انحراف اور حصول انصاف میں کھوٹ اور خامی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا‘‘
ہم آج تک یہ دو ٹوک فیصلہ ہی نہیں کرسکے کہ امریکہ ہمارا دوست ہے یا دشمن؟ دراصل فیصلہ تو کبھی کا ہوچکا ہے، مگر ہمارے بے جا مفادات ، ہماری مصلحت کاریاں اور ہمارا خوف ما نع ہے جو ہمیں حقیقت حال کے اظہار سے روکتا ہے ۔