سیاسی لغت حاضر خدمت ہے یعنی پاکستانی سیاست میں استعمال ہونے والے الفاظ کی توضیح و تشریح:۔
الف سے ’’اقتدار‘‘
اقتدار ایک ایسے نشے کا نام ہے جو کبھی نہیں اترتا۔ خواہش اقتدار ایک متعدی مرض ہے جو بیٹے کو باپ سے لگتا ہے، اپوزیشن کو حکومت سے اور امیدوار کو الیکشن سے۔
الف سے’’ الیکشن‘‘
الیکشن ایک حسین دھوکہ ہے جس کے ذریعے عوام کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایک کرپٹ حکومت کوگدی سے اتارا جاتا ہے اور دوسری کرپٹ حکومت کو بٹھایا جاتا ہے۔ اس فریب کن عمل کے بعد عوام آس لگالیتے ہیں اور سمجھتے ہیں ان کی تقدیر جاگ اٹھی۔
الف سے’’ اعتدال پسندی‘‘
نئی صدی کی ایک خوبصورت سیاسی اصطلاح جو عوام کو ہر حال میں صبر، درگذر، تحمل اور امن عامہ کی تلقین کرتی ہے۔ اگر آپ کو انصاف نہیں ملتا، کوئی غم نہیں۔ اگر آپ کے نصیب میں آزادی نہیں، کوئی بات نہیں۔ اگر آپکے حقوق غصب کئے جارہے ہیں، تو بھی اعتدال پسندی کا دامن تھامے رہیے۔ اعتدال پسندی کی چاہت سے آپ کے سینے میں عدم تشدد اور امن کی خواہش کا جذبہ تو پیدا ہوسکتا ہے۔
الف سے’’ افواہ‘‘
افواہ ماڈرن سیاست کا ایک موثر ہتھیار ہے۔ ہر سچی افواہ ایک جھوٹی خبر ثابت ہوتی ہے اور جھوٹی افواہ سچی خبر کے زمرے میں آتی ہے۔
الف سے ’’آنسو گیس‘‘
پولیس ان لوگوں کیلئے سڑکوں پر آنسو گیس چھوڑتی ہے جو آنسوؤں سے پیار رکھتے ہیں۔ تاکہ حقوق کے متلاشی مصیبت زدہ لوگ جی بھر کے رو سکیں اور اپنا بوجھ ہلکا کرسکیں۔ پس اس سڑک پر نکل جائیں جہاں آنسو گیس کی بارش ہورہی ہے۔ بہت جلد آپکی آنکھوں میں انسوؤں کی برسات شروع ہوجائیگی اور دیکھتے ہی دیکھتے آپکا غم ہلکا ہوجائے گا۔
ب سے ’’بیانات‘‘
دل میں چھپے ’’سیاسی‘‘ جذبوں کو خوبصورت لفافوں میں بند کرنے کا نام بیانات ہے۔
پ سے ’’پاکستان‘‘
ملک خداداد جو چودہ اگست 1947 کو برطانیہ کی غلامی سے آزاد ہوا اور امریکہ کی غلامی میں چلا گیا۔
ت سے ’’تقریر‘‘
آنکھوں کے اشارات، ہاتھوں کی حرکات، حلق کی غرغراہٹ، گردن کا خم، ہونٹوں پر الفاظ کی موجیں، ایک گلاس پانی کی طلبی اور مائیک پر مکوں کی برسات سے ایک ایسا مرکب بنتا ہے جسے تقریر کا نام دیا جاسکتا ہے۔ سیاسی تقریر کو میٹھا، لذیذ اور سماعت فریب ہونا چاہیے کہ اِدھر منہ کھلے اُدھر الفاظ کے پھول برسنے لگیں۔ ایسا نہیں کہ معلوم ہو ٹیچر کو سبق سنایا جارہا ہے۔ اگر الیکشن سر پر کھڑے ہوں اور آپکے پاس وقت کم ہو تو سو الفاظ فی منٹ کی اسپیڈ سے تقریر کرنی چاہیے۔
ٹ سے ’’ٹماٹر‘‘
ایک خوش نما ترکاری جو سالن میں ڈالنے اور لیڈروں کا استقبال کرنے کے کام آتی ہے۔
ج سے ’’جلسہ‘‘
لوگوں کو الّو بنانے کی ایک عوامی تقریب جس میں صدر جلسہ کی وہی حیثیت ہوتی ہے جو کرکٹ میں کپتان کی اور اسٹیج سکریٹری کا وہی مقام ہوتا ہے جو وکٹ کیپر کا۔
چ سے ’’چمچہ‘‘
سالن میں چلانے اور سیاست کو گھمانے کے کام آتا ہے
ح سے ’’حکمراں‘‘
اگر دنیا کے حکمرانوں کو بیچ سے نکال دو تو دنیا کے حالات خودبخود ٹھیک ہوجائیں۔
خ سے ’’خبریں‘‘
کسی اچھے واقعے کو ’’خیریت‘‘ اور برے واقعے کو ’’خبر‘‘ کہتے ہیں۔ صحافی زمانہ حال کی خبریں لکھتا ہے اور مورخ زمانہ ماضی کی۔ امریکی صدر کے مزاج کی تبدیلی سے عالمی خبروں کا ٹمپریچر بدل جاتا ہے۔
خ سے ’’خود کش حملہ‘‘
دیوار سے لگائے ہوئے سر پھروں کا ایک موثر ہتھیار۔ کسی کو نہیں پتہ کہ اس ہتھیار کا موجد کون ہے۔ ان ملکوں میں جہاں غربت و مفلسی ہے ’’خودکشی‘‘ کے بہتر مواقع میسر آتے ہیں۔ ان ملکوں میں جہاں امریکہ حملہ کرتا ہے ’’خودکش حملوں‘‘ کیلئے ماحول سازگار ہوجاتاہے۔
د سے ’’دفعہ 144‘‘
پاکستان کی ایک مشہور دفعہ جو اپوزیشن کی خود سری کو کنٹرول کرنے کے کام آتی ہے۔ اسکے نفاذ سے معلوم ہوجاتا ہے کہ کن کن شہروں میں حکومت کی مقبولیت کم ہے۔
ر سے ’’روشن خیالی‘‘
مشرق کو مغرب میں ڈھالنے کا ایک جدیدنسخہ جس کے آگے ’’ملائیت‘‘ نے دیوار کھڑی کردی ہے۔
س سے ’’سیاست‘‘
سیاست ایک ایسے خوبصورت اور خوش کن جھوٹ کا نام ہے جو پاکستان میں خوب پروان چڑھتا ہے۔
س سے ’’سیاست داں‘‘
پاکستان کا سب سے کامیاب طبقہ جو چاندی کا بلکہ سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہوتا ہے۔ سیاستدانوں کیلئے سب سے اہم کام تقریر کرنا یعنی بولنا ہے۔ سیاستداں اگر سچ بولنے لگیں تو لوگ انہیں پاگل سمجھنے لگیں۔
س سے ’’سیاسی ڈرامہ‘‘
ایسا ڈرامہ جس کا پروڈیوسر کوئی وزیر ہو سیاسی ڈرامہ کہلاتا ہے۔ اس ڈرامے میں ولن کا کردار اپوزیشن لیڈر ادا کرتا ہے۔
ع سے ’’عوام‘‘
ایک ایسا جانور جو کئی بار مختلف طریقے سے شکار ہوتا ہے
ف سے ’’فوجی حکومت‘‘
فوجی حکومت ایک کالا بادل ہے جو کسی بھی وقت سیاست کے آسمان پر منڈلاسکتا ہے۔ ہر فوجی حکمراں فری اسٹائل سیاسی کشتی میں اپنے مد مقابل کو ناک آؤٹ کرنے کا تجربہ رکھتا ہے۔
ق سے ’’قومی اسمبلی‘‘
ایک سیاسی اکھاڑہ جہاں شیطانی طاقتیں جمع ہوتی ہیں اور کرسیوں کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں۔ یہاں ’’جسکی لاٹھی اسکی بھینس‘‘ کی کہاوت نہیں چلتی بلکہ ’’جسکی کرسی اسکی جیت ‘‘ کی کہاوت چلتی ہے
ک سے ’’کرسی‘‘
کرسی کی تین ٹانگیں ہوتی ہیں۔ یہ کسی بھی وقت لڑھک سکتی ہے مگر اس پر بیٹھنے والا سمجھتا ہے اس کی چاروں ٹانگیں سلامت و مضبوط ہیں
گ سے ’’گالی‘‘
’’عوام الناس‘‘ دیں تو قابل تقصیر ’’خواص الناس‘‘ دیں تو قابل تعظیم
ل سے ’’لیڈر‘‘
1947 میں پاکستان ہمارے لیڈروں کیلئے بنا اور 1971 میں ہمارے لیڈروں ہی نے اسے توڑا۔ ہمارے لیڈروں کا مستقبل کیا ہوگا:
یہی انداز سیاست ہے تو کل کا لیڈر
برف کے باٹ لئے دھوپ میں بیٹھا ہوگا
م سے ‘‘منشور‘‘
ہر پارٹی کا ایک ہی منشور۔ ۔ ۔ آؤ مل کر پاکستان کو لُو ٹیں
ن سے ’’نیکیاں‘‘
نیکیاں وہ ہوتی ہیں جو ہمارے رہنما دریا میں ڈالتے ہیں۔ انہوں نے اتنی نیکیاں دریا میں ڈالیں ہیں کہ پورا دریا بھر گیا ہے۔ ہم نے خود دیکھا دریا میں نیکیاں ہی نیکیاں تھیں پانی ختم تھا۔
ی سے ’’یوم آزادی‘‘
آزادی۔ ۔ ۔ کیسی آزادی؟ آزادی کے پردے میں ایک زنداں چھپا ہے۔