امریکہ میں متعدد جگہوں پر ادبی کیفے جات بنے ہوئے ہیں جہاں دانشور، شاعر، پروفیسر یا صحافی حضرات آکر چائے پیتے ہیں، سگریٹ پھونکتے ہیں، غم بانٹتے ہیں اور اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ کیفے جات کا ماحول ویسا ہی ہوتا ہے جیسا اسے ہونا چاہئیے یعنی انتہائی دانشورانہ اور انتہائی احمقانہ۔ ایک ٹیبل پر امریکی اخبارات پڑے ہوئے ہیں۔ دوسری ٹیبل پر نئی شائع شدہ کتب، یہ کتب زیادہ تر ان مصنفین کی ہوتی ہیں جو ان کیفے جات میں آتے رہتے ہیں۔ دیوار پر نوٹس بورڈ آویزاں ہے جس پر قرینے سے پمفلٹ اور پوسٹر لگے ہوئے ہیں کہ کہاں پر علمی کانفرنس ہورہی ہے اور کہاں پر کسی نئی کتاب کی تقریب رونمائی۔ میں بھی کبھی تنہا کبھی کچھ پاکستانی دوستوں کے ہمراہ وہاں جاکر ٹائم گزارتا ہوں۔ میرے یہاں کچھ مستقل شناسا ہوگئے ہیں جن سے میں بے تکلف گفتگو کرتا ہوں۔ کچھ اپنی سناتا ہوں کچھ ان کی سنتا ہوں۔ آئیے چند شناساؤں سے آپ کو بھی ملاؤں:
۱) ولیم کیٹس:۔ یہ صاحب نیو جرسی کے ایک پبلک اسکول میں ٹیچر ہیں۔ تیس برس پہلے یورپ سے امریکہ آکر بسے تھے۔ ولیم کیٹس کی تمام خوبیاں ان کی اپنی ہیں، خامیاں اپنی نہیں ہیں دوسروں سے مستعار لی ہیں۔ انہیں شعر کہنے کا شوق ہے اور شعر سنانے کا جنون۔ انکا دعوی ہے انکی شاعری میں سوز و گداز ہے جس سے درد دل پیدا ہوتا ہے مگر ہم نے تو جب بھی سنی درد سر پیدا ہوا۔ آجکل اپنی کتاب کے نئے editionمیں کچھ additionکررہے ہیں۔ پچھلے ہفتے انہوں نے ہمیں اپنی ایک نظم ’’دل نشیں موت‘‘ ارسال کی تھی۔ آج ملاقات ہوئی تو تعریف طلب نظروں سے ہمیں دیکھا۔ ہم نے کہا ’’موت پر آپ کی نظم پڑھ کر ہمیں زندگی سے نفرت ہوگئی۔ آپ نے واقعی اپنی نظم میں موت کو دلہن بناکرپیش کیا ہے۔ موت کی اتنی مدلل اور پر کشش تعریف ہم نے کبھی نہیں دیکھی‘‘ اپنی تعریف سن کر ولیم کیٹس حیرت زدہ ہوجاتے ہیں، گویا یہ تعریف غیر متوقع تھی۔ پتہ نہیں چلتا انکے چہرے پر فخر کا احساس ہے یا ندامت کا۔ ہم نے ان سے پوچھا آپ تو کافی کڑوے آدمی ہیں آپ کو شوگر کیسے ہوگئی؟ کہنے لگے دراصل مجھے جو چیزیں بھی مفت میں کھانے کو ملیں وہ میٹھی تھیں۔
۲) ابراہام روکش :۔ چہرے پر علمیت اور وقار کی چھاپ، بدن پر لمبا کالا گاؤن۔ دیکھنے سے قرون وسطی کے کوئی راہب دکھائی دیتے ہیں۔ یہ صاحب ایرانی یہودی ہیں۔ انکے دادا زاہدان سے آکر نیویارک میں آباد ہوئے تھے۔ انکی پھلوں کی خوانچہ نما دوکان ہے جو انہوں نے ایک بلیک امریکن کے ساتھ پارٹنر شپ میں کی ہے مگر آج کل اس پارٹنر شپ میں کچھ شگاف پڑ گیا ہے اور غلط فہمیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ پرسوں ملاقات ہوئی تو کہنے لگے ’’ساجھے کی ہانڈی بیچ میدان میں ٹوٹتی ہے۔ مشترکہ تجارت کرنا مشترکہ خود کشی کرنے کے مترادف ہے‘‘ ابراہام فارسی اور انگریزی میں شاعری کرتے ہیں۔ آتش مزاج شاعر ہیں معلوم ہی نہیں ہوتا ان پر غصہ نازل ہورہا ہے یا شعر۔ ان کے لئے شعر لکھنا آسان ہے شعر سوچنا مشکل۔ چند منٹوں میں لکھ لیتے ہیں مگر لکھنے کے بعد گھنٹوں سوچتے رہتے ہیں۔ پچھلے سال جب انہوں نے زندگی کی پچاس بہاریں مکمل کیں شادی کرلی۔ ان کا قول ہے ’’شادی اور شاعری بہت سوچ سمجھ کر کرنی چاہئیے‘‘ بہترین دماغ اور آنکھوں کے مالک ہیں مگر ان دونوں چیزوں کے استعمال کو شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں جیسے فکر کی آخری حد بے فکری ہے اسی طرح عقل کی آخری حد بے عقلی۔
۳) آدم جان:۔ یہ میکسیکو کے نومسلم ہیں۔ افسانہ نگاری اور ناول نگاری ان کا پیشہ ہے۔ بہت سمجھ دار آدمی ہیں۔ اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں، بیٹھی ہوئی چڑیا کے پر نہیں گن سکتے۔ موصوف کا کمال یہ ہے کہ ناول کے اختتام پر قاری کے پیروں تلے سے زمین نکال دیتے ہیں۔ بہت ڈراؤنے اور سحر زدہ افسانے لکھتے ہیں۔ جو بھی انکا افسانہ پڑھتا ہے یہی کہتا ہے افسانہ کیا ہے افسوں ہے۔
۴) ہری چند:۔ انبالہ کے نوجوان گجراتی شاعر۔ کلام پڑھتے ہیں تو مشاعرہ لوٹ لیتے ہیں مگر جب انہوں نے اپنا کلام چھپوایا تو پبلشر نے انہیں لوٹ لیا۔ مشاعرہ لوٹنے میں ان کے کلام سے زیادہ انکی آواز کا دخل ہوتا ہے۔ انکی شاعری بے جان ہے مگر اس میں ان کی آواز گھول دی جائے تو جاندار ہوجاتی ہے۔ بقول شخصے وہ نظم اچھی لکھتے نہیں ہیں مگر اچھی پڑھتے ضرور ہیں۔ بہت زود گو، عجلت گو اور فی البدیہہ شاعر ہیں اس لئے مشاعرے کی پہلے سے تیاری نہیں کرتے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جب مشاعرہ میں ہری چند کا نزول ہوتا ہے ٹھیک اسی وقت ہری چند پر شعروں کا نزول ہوتا ہے۔ شعر پڑھتے وقت تحسین طلب نظروں سے حاضرین کو دیکھتے ہیں مگر خود تحسین گوئی میں اس قدر کفایت شعار کہ کسی کی تعریف کرنے سے پہلے سو مرتبہ غور فرماتے ہیں۔ منکسر المزاج آدمی ہیں۔ خود کو ’’ناچیز‘‘ کہتے ہیں مگر ہم انہیں ’’بڑی چیز‘‘ کہتے ہیں۔ انڈیا میں فوجی ملازمت کرتے تھے مگر غیر فوجی خواہشات رکھتے تھے۔ یعنی ان کی خواہشات میں کبوتر بازی، پتنگ بازی، ہلڑ بازی نیز کئی اور ’’بازیاں‘‘ شامل تھیں۔
۵) ڈاکٹرحبیب الرحمان:۔ ایک تجربہ کار فزیشن ہیں جو نیو جرسی میں اپنا ذاتی کلینک چلا رہے ہیں۔ چٹاگانگ کے ڈاکٹر حبیب الرحمان کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور انگریزی و بنگلہ دیشی اخبارات میں ہر ماہ تین چار شوقیہ کالم لکھتے ہیں۔ مشرقی اور مغربی علوم پر ان کا مطالعہ بے پناہ ہے۔ متفرق نویس ہیںیعنی سیاست نویسی، تاریخ نویسی، نفسیات نویسی اور اخلاق نویسی انکے مشاغل ٹھہرے اور نسخہ نویسی انکا پیشہ۔ یہ فیصلہ کوئی نہ کرسکا کہ ڈاکٹر صاحب کالم زیادہ اچھا لکھتے ہیں یا نسخہ؟ لیکن خود ڈاکٹر صاحب کا قول ہے کہ زیر طبع کتاب مطبوعہ کتاب سے بہتر ہوتی ہے اور زیر تکمیل فلم ریلیز شدہ فلم سے۔ یہ قول انہوں نے اپنی پہلی کتاب کی اشاعت کے موقع پر ریلیز کیا تھا۔
۶) ایلن چیمبرز:۔ یہ ایک بلیک امریکن ہیں اورکیفے کے سب سے معمر رکن جن کا زیادہ تر وقت کیفے کی خاک چھانتے گزرتا ہے۔ اپنی جوانی میں وہ نیویارک ٹائمز میں بھی رپورٹنگ کرچکے ہیں۔ ایک اچھے رائٹر ہیں۔ اپنے افسانوں اور مضامین میں وہ مناظر کی بہترین فوٹو گرافی کرتے ہیں کہ شاید کیمرہ بھی وہ منظر کشی نہ کرسکے جو ان کی تحریروں میں نظر آتی ہے۔ بہت دل چسپ گفتگو کرتے ہیں مگر ان سے ہم کلام ہونے سے پہلے ان کے موڈ کا ٹمپریچر دیکھنا پڑتا ہے۔