جس کے متعلق میں آج لکھ رہا ہوں وہ کرکٹر ہے اداکار نہیں۔ میں جو آپکو بتاؤں گا وہ پوشیدہ ہوگا ظاہر نہیں۔ آج جو آپ پڑ ھ رہے ہیں وہ پہیلی ہے کالم نہیں۔
جب وہ بالنگ کراتا اس کی ٹیم کے تماشائی تالیاں بجاتے۔ جب وہ بلے بازی کرتا مخالف ٹیم کے تماشائی تالیاں بجاتے۔ یوں وہ اسٹیڈیم میں بیٹھے تمام تماشائیوں کو خوش ہونے کا یکساں موقع فراہم کرتا۔ بعض لوگ اسے کرکٹ کا ہرفن مولایعنی آل راؤنڈر کہتے ہیں مگر اس کا کہنا ہے جب وہ چھوٹا بچہ تھا وکٹ کیپنگ کرتا تھا۔ بڑا ہوا تو بیٹنگ کرنے لگا اور جب پاکستان کی قومی ٹیم میں شامل ہوا تو بالنگ کراتے وقت سب سے زیادہ خوشی محسوس کرتا۔
وہ اسٹیڈیم میں یوں فخر کے ساتھ داخل ہوتا ہے جیسے ریما اسٹوڈیو میں داخل ہوتی تھی اور گیند کے پیچھے یوں بھاگتا جیسے ایک زمانے میں وحید مراد زیبا کے پیچھے بھاگا کرتا تھا۔ اپنی باری آنے پر بیٹنگ کرنے یوں جاتا جیسے شادی کرنے جارہا ہو یعنی جلد ہی طلاق دیکر واپس آجائیگا۔
بلے بازی کرتے وقت اگر اسے وائیڈ بال یا نو بال کا رن مل جائے تو خوشی سے پھولے نہیں سماتا۔ بالنگ کراتے وقت اگر ا یمپائر وائیڈ بال یا نو بال کا اشارہ کردے تو اسکو کھاجانے والی نظروں سے دیکھتا۔ جب مخالف ٹیم کا کھلاڑی اس کا کیچ چھوڑ دیتا تو اس کا جی چاہتا اس کھلاڑی کو کچھ انعام دے۔ ممکن ہے کھیل کے اختتام پر اس کا شکریہ بھی ادا کرتا ہو۔ اگر مخالف ٹیم کا بلے باز اسکی بال کا جواب چوکے یا چھکے سے دے تو اسے گندی سی گالی دیگا اور پھر گالی کی تشریح بھی کریگا۔ کرکٹ ہی اس کا اوڑھنا بچھونا ہے مگر اوڑھنا کم بچھونا زیادہ۔ ہر کرکٹر کے غم اور خوشی میں شریک رہتا ہے۔ کرکٹ کی دنیا میں کسی کی وفات ہوجائے تو اسے اپنی وفات سمجھتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی کرکٹر کی شادی کو اپنی شادی قیاس کرتا۔ اور یہ قیاس ہی ہے جو اسکی شادی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مطلب یہ کہ جب بھی کوئی لڑکی اسے شادی کی آفر کرتی‘ جواب دیتا’’بہن جی میں تو کئی شادیاں کرچکا ہوں‘‘
آؤٹ ہونے کے بعد پویلین کیطرف یوں شرمایا شرمایا جاتا جیسے کوئی مجرم فراخدلی سے اپنے جرم کا اعتراف کررہا ہو۔ کسی بھی وقت کسی بھی حالت میں کسی طرح کی پچ پر بھی کھیل سکتا ہے اور اس کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ نازک اور نامساعد حالات میں زیادہ اچھا کھیلتا ہے۔ وہ جیتنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ ہارنے سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کوشش میں جیت ہی جائے۔
مرغی کا گوشت بالکل پسند نہیں کرتا بکرے کا گوشت پسند کرتا ہے۔ ویسے بھی کرکٹ میں ہم نے بلے بازوں کو مرغی کھانے کا شوقین نہیں دیکھا البتہ کئی بلے بازوں کو ’’انڈا‘‘ کھانے کا شوقین دیلھا ہے۔ نمکین کھانوں میں اسے بریانی پسند ہے اور میٹھے کھانوں میں میٹھے بول۔ عمران خان کی کرکٹ سے متاثر ہوا ہو یا نہیں مگر ان کی سیاست سے دن بدن متاثر ہورہا ہے۔ میچ کی تیاری یوں کرتا ہے جیسے امتحان کی تیاری کررہا ہو۔ اس کے کپتان نے ایک بار کہا تھا کہ عام زندگی میں وہ زیادہ سمجھدار نہیں مگر اس کے پاس سوچنے کے لئے دماغ نہیں ہے تو کیا ہوا درد پیدا کرنے کے لئے دل تو ہے۔
اسے مذاق کرنے کا ہنر آتا ہے اور جب وہ بیٹنگ کرتے وقت زیرو پر آؤٹ ہوکر واپس آتا ہے تو اس ہنر کا بھرپور اندازہ ہوجاتا ہے۔ بہت متوازن طبیعت کا مالک ہے اس لئے جارحانہ بالنگ کراتے وقت اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ بیٹسمین کی برداشت سے باہر نہ ہو۔ آج تک کسی کھلاڑی سے متاثر نہیں ہوا مگر ہر اس سینئر کھلاڑی سے ایک دم متاثر ہوجاتا ہے جو اس کی تعریف کرتا ہے۔
سردیوں کے موسم میں وہ گرمی تلاش کرتا ہے اور گرمیوں کے موسم میں سردی۔ وہ جب بھی پریشان ہوتا ہے کہتا ہے میں آج کل بے کل ہوں۔ رازداری کا اتنا خیال رکھتا ہے کہ بعض راز خود پر بھی افشا نہیں کرتااس لئے اب تک پتہ نہیں چل سکا کہ شادی شدہ ہے یا خوش قسمت۔
بہت رحم دل ہے اس لئے کسی کو مجبور و لاچار نہیں دیکھ سکتا۔ چنانچہ جب کوئی مجبور و لاچارسامنے آکر کھڑا ہوجائے تو آنکھیں بند کرلیتا ہے۔
جس سے راضی ہوجائے اس کے سامنے خاموشی اختیار کرلیتا ہے اور اس وقت تک کئے رکھتا ہے جب تک سامنے والا چیخیں نہیں مارنے لگتا۔ جس سے ناراض ہوجائے اس کی تعریف شروع کردیتا ہے اور اس وقت تک کرتا رہتا ہے جب تک سامنے والے کے سر میں تکبر نہیں سماجاتا۔
اگرچہ گیند بلے کا شوق اسے موقع نہیں دیتا کہ وہ کسی اور طرف بھی دھیان دے مگر اس شوق کے بعد اگر اسے کوئی شوق ہے تو وہ مطالعے کا ہے۔ ہر اچھی کتاب کو غور سے پڑھتا ہے تاکہ اس میں کوئی برائی نکال سکے۔ ہر بری کتاب کو بھی غور سے پڑھتا ہے تاکہ اس میں کوئی اچھائی نکال سے۔ اسے کیڑے نکالنا ہی نہیں کیڑے پیدا کرنا بھی آتے ہیں۔
کرکٹ کے میچ کو آسان سمجھتا ہے اور زندگی کو ایک کٹھن سفر۔ مگر وہ اس مسافر کی طرح ہے جو لاہور سے کراچی سفر کرتا ہے اور کراچی پہنچ کر یاد کرنے لگ جاتا ہے کہ کراچی کیوں آیا تھا؟
کہتا ہے میں خود اعتمادی سے بلے بازی نہیں کرسکتا تاہم عام زندگی میں اسے اتنی خود اعتمادی ہے کہ ہر جھوٹ کو بڑے اعتماد کے ساتھ سچ ثابت کرسکتا ہے مگر اس کی ایک کم زوری آڑے آجاتی ہے وہ یہ کہ جھوٹی بات کرتے وقت اونچے سروں میں بولنے لگتا ہے، سچی بات کرتے وقت دھیمے سروں میں، یوں فوراً پتہ چل جاتا ہے کہ جھوٹ بول رہا ہے یا سچ۔
میچ دیکھتے وقت کبھی تبصرہ نہیں کرتا مگر فلم دیکھتے وقت تبصرہ ضرور کرتا ہے اور اس کا تبصرہ آنے والے سین کے متعلق ہوتا ہے۔ اکثر یوں گھبرایا ہوا نظر آتا ہے جیسے جیب کٹ گئی ہو۔ پھٹی ہوئی جیب کو بھی کٹی ہوئی جیب سمجھتا ہے۔ جب بھی اسے کوئی لڑکی نظر آتی ہے تو اس کی پیشانی پر پشیمانی نظر آتی ہے۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دیتا ہے یعنی آپ اس کے ساتھ ایک مہربانی کریں تو یہ آپ کے ساتھ دس مہربانیاں کردے گا۔
جب وہ کرکٹ کی دنیا میں آیا تو شائقین نے اسے خوش آمدید کہا مگر وہ سامنے والے کو خوش آمدید یوں کہتا ہے جیسے خدا حافظ کہہ رہا ہو۔
جی ہاں یہ وہی کھلاڑی ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں یا کچھ دیر بعد سمجھ جائیں گے۔ اگر اب بھی نہ سمجھیں تو پھر آپکی عقل کو خدا ہی سمجھے۔