پانچ سال پہلے میرا دوست کہتا تھا :
’’بھائیو، میری شادی کراؤ‘‘
اب کہتا ہے:
’’مجھے میری بیوی سے بچاؤ‘‘
اس کا قول ہے کہ شادی کرلو یا خود کشی ایک ہی بات ہے۔
میرا دوست جس کا نام بھولے خان ہے غریب کے آنسو کی طرح مجبور اور بچپن کی خواہش کی طرح معصوم ہے۔ ’’میٹھی بیگم‘‘ سے شادی کے بعد اس کی زندگی ’’تلخ‘‘ ہوگئی ہے اور اس کا وقت ایک آتش دان کی طرح سلگ رہا ہے۔ اس کی ٹھنڈی سانسوں کی خنکی اور دھیمے لہجے کی مدہوشی دیر تلک میرے احساس کے پردے پر لرزتی رہتی ہے۔میں اکثر اوقات کتاب پڑھتے پڑھتے کتاب بند کردیتا ہوں اور اس کے چہرے کی کشمکش پڑھنے لگ جاتا ہوں۔
میٹھی بیگم ساٹھ سال کی عورت ہے نہ چالیس سال کی بچی، وہ پچاس سال کی لڑکی ہے۔ اس سے بریانی اور باتیں بنانا بہت اچھی آتی ہیں۔ خود بڑے تکلفات کے ساتھ لکھنوی کھانے کھاتی ہے مگر شوہر کو حیدرآبادی کھانے کھلا کھلا کر اس کے دانت کھٹے کردئیے ہیں۔ میٹھی بیگم کا چہرہ دن کی طرح روشن ہے، بال رات کی طرح سیاہ ہیں، آنکھیں صبح کے خمار کی طرح نشیلی ہیں، اس کی کمر شام کے افق کی طرح خم دار۔ وہ وقت کے ہر موسم پر قابض ہے اور روز و شب کی شہنشاہیت کی مالک ہے۔ میرا دوست بھولے خان اب بھی یہی کہتا ہے کہ:
’’ میٹھی بیگم تم کتنی خوب صورت ہو ۔۔۔ اور میں ۔۔۔ میں کتنا بد قسمت‘‘
بھولے خان کا وشواس ہے کہ عورت سو فی صدی جھوٹی ہوتی ہے۔ میں نے پوچھا کہ تم اس کا چہرہ دیکھ کر کیسے اندازہ کرسکتے ہو کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے؟ بولا اس کے ہونٹ ہل رہے ہوں تو سمجھو جھوٹ بول رہی ہے۔ ہونٹ ساکن ہوں تو سمجھو جھوٹ بولنے کی تیاری کررہی ہے۔ وہ لمحہ جب عورت کے ہونٹ چپ ہوں بہت خوش گوار، حسین مگر نا قابل یقین ہوتا ہے۔
سفر میں بھولے خان کو بیوی کا سامان اٹھانا پڑتا ہے اور گھر میں اس کے نخرے۔کل ہی کی بات ہے میٹھی بیگم نے اپنے بالوں کی آخری لٹ سنواری اور ساڑھی کی آخری شکن دور کی پھر اپنا پرس اٹھاتے ہوئے بولی:
’’چلو اب میں تیار ہوں ، اٹھاؤ میرا سوٹ کیس‘‘
بیوی ہی نہیں سسرالیوں نے بھی استیصال کرتے کرتے اسے ادھ موا کردیا ہے۔ عجیب قسم کی سسرال پائی ہے اس نے۔ سسر صاحب مانشااللہ بہت اعلئ درجے کے کنجوس ہیں۔ سو دو سو کی نہیں، ہزاروں لاکھوں کی کنجوسی کرتے ہیں۔ اس لئے کہ کوئی غریب کنجوس نہیں ہیں، بہت مالدار قسم کے کنجوس ہیں۔
بھولے خان کا بڑا سالا ٹیچر ہے جو روز اپنی بیوی کو ڈانٹ پلاتا ہے۔ چھوٹا سالا فوج میں افسر ہے جس کی بیوی روز اسے ڈانٹ پلاتی ہے۔ بہر حال دونوں طرف پلانے ہی کا کام ہورہا ہے۔
مثل مشہور ہے کہ ’’سالی آدھی گھر والی‘‘ اور یہ مثل بھولے خان پر صادق آتی ہے۔ آج صبح مجھ سے کہنے لگا:
’’تمہاری بیوی کی صرف ایک بہن ہے ، میری بیوی کی بھی صرف ایک بہن۔ مگر فرق یہ ہے کہ تمہاری خشک سالی ہے میری گیلی سالی۔ یقین نہ آئے تو ہاتھ لگاکر دیکھ لو‘‘
میں نے غور سے دیکھا۔ اس کی سالی کا بدن واقعی گیلا تھا۔ پسینے سے شرابور۔ پسینہ اسے ہر وقت آتا رہتا ہے اور یہ بیماری بچپن سے ہے۔بھولے خان کی تنخواہ کا نصف سالی کی بیماری پر خرچ ہوتا ہے، نصف بیوی کی صحت مندی پر ، کہ ناشتے میں پاؤ بھر بادام اور دوپہر کو بکرے کے اعضائے جسمانی حوالہ شکم کرنا ، نیز شام کو اصلی گھی میں بنی یخنی نوش فرمانا اس کا روز کا معمول ہے۔
ایک تو بے جااخراجات کی بھرمار دوسرے آئے دن کی فرمائشیں۔ اب تو بھولے خان بھی جل کر جواب دیتا ہے۔ اس کی بیوی ایک دن کہنے لگی:
’’میرے سرتاج، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تم میرے لئے ایک قیمتی اور خوب صورت ساڑھی لے کر آئے ہو‘‘
بھولے خان نے کہا:
’’تو پھر اسے خواب ہی میں پہن لینا‘‘
میں نے بھولے خان سے پوچھا ، تمہیں کیا ضرورت تھی لؤ میرج کی؟ ناحق اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالا۔ جواب دیا:
بس کیا کروں غلطی ہوگئی۔ آپ کو معلوم ہے ہر شریف آدمی سے غلطی ہوجاتی ہے، بد معاش سے نہیں ہوتی۔ اصل میں محبت نے مجھے اندھا کردیا تھا ۔ اس کی لرزتی پلکیں، جھکی جھکی نگاہیں، مدھم سانسیں، خطرناک خم اور ڈولتی ہوئی چال۔ ساری محفل میں ایک وہی تھی جومجھے یاقوت کی طرح چمکتی ہوئی نظر آتی۔ اس کے حسن و جمال نے میرے دل پر جارحانہ حملہ کردیا۔ میں نے اپنے پورے وجود پر ایٹمی دھماکے محسوس کئے۔ میں زیادہ دیر یہ رومانی چوٹیں برداشت نہ کرسکا۔ میں نے ہتھیار ڈال دئیے۔رہا سوال اس کی خود سری اور انائیت کا ، تو وہ شادی سے پہلے بھی ایسی ہی تھی اور میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔ ایک دفعہ اسکے متبسم چہرے کا تصور لئے اس سے ملنے آیا۔ بت بنا اسے دیکھتا رہا۔ بولی ’’کیا کررہے ہو؟‘‘ میں نے کہا ’’آپ کی مسکراہٹ کا انتظار‘‘ حکم لگایا ’’آج نہیں مسکراؤں گی، کل آنا‘‘
ایک میٹھی بیگم ہی پر کیا موقوف۔ ہرعورت اپنے آپ کو ملکہ حسن سمجھتی ہے۔ ہسپانوی اداکار نے جب بیان دیا کہ میں فلم انڈسٹری کی سب سے خوب صورت ہیروئین سے شادی کرنے والا ہوں تو اس کے پاس بارہ فلمی اداکاراؤں کے خطوط آئے کہ شکریہ آپ نے مجھ سے شادی کا فیصلہ کیا۔
اپنے دوست کی شادی کا نتیجہ دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کیا لؤ میرج پر قانونی طور پر پابندی عائد نہیں ہوسکتی؟ یا یہ کہ مردوں اور عورتوں کو دو الگ الگ جزیروں میں آباد کردیا جائے اور ان کے درمیان دیوار چین حائل کردی جائے۔
مغرب میں مختلف فلاحی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں جو ازدواجی بگاڑ کی اصلاح کے لئے مرد و زن کو مشورہ فراہم کرتی ہیں اور قانونی، نفسیاتی اور سماجی دائرہ کار میں ان کی مدد کے لئے عملی اقدام کرتی ہیں۔ محدود پیمانے پر ایسی تنظیمیں تقسیم ملک سے پہلے سے بر صغیر میں قائم ہیں لیکن ایسی بھی اصلاح نہیں ہونی چاہئیے جیسا کہ دہلی میں ایک بگڑے ہوئے بد معاش شوہر کو چند ماہ کے لئے اجمیر شریف کے ایک تربیتی کیمپ میں بھیج دیا۔ وہاں سے وہ اتنا شریف، اتنا شریف ہو کرواپس لوٹا کہ اپنی بیوی سے بھی ماں بہن جیسا سلوک کرنے لگا۔