ایک دوست نے بتایا کہ فیصل آباد سے سرگودھا ایک نجی بس میں سفر کر رہے تھے، ان کے ساتھ بیٹھا ایک شخص بار بار بس ہوسٹس کو بلا لیتا اور فضول سوالات کے بہانے باتیں کرتا، کبھی وائی فائی کا پاسورڈ تو کبھی بال پین کبھی ہیڈ فون تو کبھی پانی کا بہانہ غرضیکہ پورے سفر میں اس شخص نے بس ہوسٹس لڑکی کو تنگ کیا اور وہ بے چاری یس سر یس سر کرتی رہی، ہم میں سے تقریباً ہر شخص نے زندگی میں کبھی نا کبھی ایسے گھٹیا افراد کو دیکھا ہوگا جو نوکری پیشہ خواتین کے ساتھ ایسی حرکات کرتے ہیں۔
ہر صاحب اولاد انسان چاہتا ہے کہ وہ خون پسینے کی کمائی سے اپنی حیثیت کے مطابق ہر وہ چیز مہیا کرے جس کی وہ خواہش کرے، دنیا کی ہر بیٹی اپنے باپ کی گڑیا ہوتی ہے اور ہر بیٹی کی زندگی کا پہلا ہیرو اسکا باپ ہی ہوتا، ہماری چھوٹی معصوم بیٹی کو بخار بھی ہوجائے تو ہم ساری رات سو نہیں پاتے، بیٹی ذرا سی دیر کے لئے نظروں سے اوجھل ہوجائے تو جان سولی پہ لٹکی رہتی ہے۔
زندگی میں ایسے کئی موڑ آتے ہیں جس میں انسان بے بس اور لاچار ہو کر بستر بیماری پہ جاگرتا ہے پھر یہی بابا کی گڑیا گھر کا بوجھ اٹھاتی ہیں، والدین کی دوا، چھوٹے بھائیوں کی تعلیم اور چھوٹی بہن کے جہیز کی فکر ان کو گھر آرام سےبیٹھنے نہیں دیتی۔
جیسے ہماری بیٹیاں ہماری جان ہوتی ہیں ویسے ہی یہ بس ہوسٹس، آفس میں کام کرنے والی، شاپنگ مالز اور ڈور ٹو ڈور کمپنی کی پراڈکٹس فروخت کرنے والی سیلز گرلز بھی اپنے بابا کی گڑیا ہوتی ہیں، جوباپ بچپن میں بیٹی کو اک پل نظروں سے دور نا جانے دیتا تھا اللہ جانے وہ باپ اب بیٹی کو کیسے اس ہوس زدہ معاشرے میں روزی روٹی کمانے بھیجتا ہوگا۔
اگلی بار جب کبھی آپ کا واسطہ ایسی نوکری پیشہ لڑکیوں سے پڑے توبجائےان پہ ہوس زدہ نظریں جمانے کے ان کو عزت و احترام دیں وقت پھرتے دیر نہیں لگتی ہوسکتا ہے کبھی آپ بستر پہ لاچار پڑے ہوں اور آپ کی بیٹی کو کوئی آپ جیسا شخص تنگ کر رہا ہو۔
بیٹیوں کو عزت دیجئے ہربیٹی باپ کی گڑیا ہوتی ہے۔