کائنات میں عاشقانِ خدا نے اپنے رب کے عشق میں کئی قسم کے امتحانات دئیے ہیں۔ بعض اوقات ایسے امتحانات بھی دئیے جو عمل عام زندگی میں حرام ہوتا ہے لیکن کتاب عشق میں وہ حلال لکھا ہوتا ہے جیسے کہ حضرت ابراھیمؑ کو آگ میں پھینکے جانے کی خبر ملی تو انہوں نے بغیر کسی مزاحمت کے خود کو معشوق کے عشق سے سرشار ہوکر آگ میں پھینکا جانا قبول کیا، پھر اپنے جوان بیٹے کے ہاتھ پاوں باندھ کر گلے پہ چھری پھیرنے کا ارادہ کر لیا کیونکہ رب العالمین کا عشق اس قدر جوش مار رہا تھا کہ اولاد کی محبت آڑے آئی ہی ناں۔
ذکریا علیہ السلام کو جب آرے سے چیرا جانے لگا تو انہوں نے بھی سچے رب کے عشق میں موت قبول کی۔
ایوب علیہ السلام کا امتحان شروع ہوا تو مال کے ساتھ ساتھ اولاد بھی مر گئی خود کوڑھ کی بیماری میں مبتلا ہوگئے جسم میں کیڑے پڑ گئے پھربھی عشقِ خداوندی میں کمی نا آئی۔
یوسفؑ چالیس سال باپ سے دور رہے، باپ کی بینائی بیٹے کے عشق میں ختم ہوگئی۔
انبیاء کے ساتھ ساتھ رب ذولجلال نے اولیاء سے بھی امتحان لئے سب نے ایک ہی بات دہرائی اے سچے رب تیرے عشق میں ہم سب کچھ لٹا چلے ہیں۔ کوئی محراب مسجد میں ضرب لگنے کے بعد فزت ورب الکعبہ کہہ گیا اور کوئی جوان بیٹے کی لاش کے پاس سر سجدے میں رکھ کر سبحان ربی الاعلیٰ کہہ کے چلا گیا۔
پس ثابت ہوا کہ عشق کے اظہار کا کوئی مخصوص طریقہ نہیں رہا۔ کبھی آگ میں کود جانا یا سولی چڑھ جانا یا پھر آرے سے چیر دیا جانا سچے عاشق ہونے کی علامت بنا اسی طرح عشق میں سینے پہ ہاتھ مارنا، پشت پہ زنجیر چلا دینا یا پھر دہکتے کوئلوں پہ ننگے پاوں چلنا عشق کا اظہار ہی ہے اور اظہارِ عشق کے یہ انداز کسی کے فتووں کے محتاج نہیں۔