نور محمد ٹی بی کے مرض میں مبتلاء تھا اور یہ مرض اسے موت کے کنوئیں سے ہی ملا جہاں وہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے مہارتیں اور کرتب دکھایا کرتا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب موت کے کنوئیں پہ شراب، شباب، عیاشی اور فحاشی کو سرکس کی خوبصورتی تصور کیا جاتا۔ ہیجڑوں کی شکل میں سستی بے حیائی عام دستیاب تھی۔ موت کے کنوئیں پہ نور محمد خواجہ سراؤں رقاصاوں کے ساتھ اپنے زندگی کے شب و روز گزارتا۔ سرکس کے ان کرداروں کے ساتھ شراب پینا دنیا کے تمام مکروہ کام کرنا کوئی بڑی بات نہ تھی۔ موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل کے کرتب دکھاتا نورمحمد اب دن بدن کمزور ہو رہا تھا۔ کھانسی اور بلغم تھوکتے نورمحمد سے موت کے کنوئیں کے سب لوگ نفرت کرنے لگے تھے۔ نورمحمد کے ساتھ ایک ٹینٹ میں رہنا ایک پیالے میں شراب پینا تو دور کی بات اب نور محمد کو سگریٹ دینا یا اس کا سگریٹ لے کر پینا بھی سرکس کے لوگ اور ہیجڑے ٹی بی جیسی مہلک بیماری کو دعوت دینا تصور کرنے لگے۔ جسموں کا غلیظ کام کرنے والے ہیجڑوں خواجہ سراوں اور سرکس کی رقاصاؤں کی غلاظت میں لتھڑی روحیں بھی اب نورمحمد سے نفرت کرنے لگی تھیں۔ اب کبھی کبھی بیٹھے بیٹھے نور محمد کو کھانسی کا ایسا شدید دورہ پڑتا کہ اس کا سینہ کسی لوکل ٹرین کے پرانے خستہ حال انجن کی طرح جام ہوکر غرانے لگتا۔ اس کا دل بیٹھنے لگتا زمین گھومنے لگتی دن کی روشنی میں بھی نور محمد کو آسمان پہ ٹوٹتے تاروں کی چنگاریاں پھیلتی دکھائی دیتیں۔ اسے ایسا محسوس ہوتا صدیوں کے بچھڑے زمین اور آسمان آپس میں مل رہے ہوں آسمانوں اور زمین کے درمیان توڑ پھوڑ کا عمل جاری ہو۔ اسے لگتا کسی حادثے کا شکار سڑک سے اتری مسافر بس کی طرح زمین بھی اپنے مدار سے ہٹ رہی ہو۔ اس کے دماغ میں زلزلے کی سی کیفیت برپا ہوجاتی۔ آس پاس بیٹھے لوگوں کے چہرے دھندلا جاتے اور اسے خون کی الٹیاں شروع ہو جاتیں۔ یہ قسمت کی لکیریں بھی بڑی عجیب ہوتی ہیں انسان کا ہاتھ کی ہتھیلی پہ کھینچی ان ریکھاؤں پہ زور ہی نہیں چلتا۔ شاید یہ منہ زور لکیریں نور محمد کے بس سے بھی باہر ہو چکی تھیں۔ ایک دن جب سرکس مالکان نے دیکھا کہ اب نور محمد موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل چلانے کے قابل نہیں رہا اور انھوں نے محسوس کیا کہ نور محمد دوران کرتب کسی حادثے کا شکار ہو سکتا ہے تو نور محمد کو سرکس سے نکال دیا گیا۔ ادھر نور محمد کے گھر چاند جیسی بیٹی کی پیدائش ہوئی۔ جس کا نام حیات بی بی رکھا گیا۔ اب نور محمد صحرا میں اگے چتری متری چھاؤں والے کسی خود رو جنگلی درخت یا جھاڑی کی طرح جس کا نہ سایہ ہو او ر نہ ہی جس پہ کوئی پھل لگ سکتا ہو سارا دن گھر میں لاچار بے بس پڑا رہتا۔ لاہور کے گلاب دیوی ہسپتال سے نور محمد کا علاج شروع ہوا۔
کب تک گھر میں کھڑی اکیلی بھینس کا دودھ بیچ کر گزارا ہوتا ویسے بھی ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اگر نور محمد کو زندہ رکھنا ہے اس کا علاج کرنا ہے تو اس کے لیے دودھ اور اچھی غذا بہت ضروری۔ کہتے ہیں نہ کہ جب " غربت بیماری اور مجبوریاں دروازے سے کسی گھر میں داخل ہوتی ہیں تو خوداری شرم و حیاء گھر کی کھڑکیوں اور روشندانوں سے باہر نکل جایا کرتی ہے، ۔ فاقوں بیماری اور غربت کے بے رحم تھپیڑوں نے جب مجبور کیا تو نورمحمد کی بیوی محلے کے چند گھروں میں کام کرنے لگی۔ ہر پندرہ دن بعد نور محمد کے چیک آپ کے لیے لاہور جانا پڑتا۔ نور محمد کی بیوی چاہتی تھی کہ کسی طرح نور محمد اس کا خاوند اس کا اکلوتا سہارا زندہ رہے مگر ہونی کون ٹال سکتا ہے۔ ایک دن جب نور محمد کی بیوی کام پہ گئی ہوئی تھی تو نور محمد کو کھانسی کا ایسا دورہ پڑا کہ اس کی سانس بحال نہ ہوئی نور محمد کا چہرہ ہواؤں کے دوش پہ رکھے بجھتے دیے کی طرح دکھائی دے رہا تھا اس کے مایوس ہونٹوں پہ آس امید کی کوئی جنبش نہ رہی۔ اس کی پیشانی پہ زندگی موت کی ہاتھا پائی کی ابھرتی شکنیں نمودار ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ ہر انسان کی زندگی میں ایک وقت مقرر ایسا ضرور آتا ہے جب زندگی کو موت کے سامنے ہتھیار ڈال دینا پڑتے ہیں ایسا ہی آ ج کچھ نور محمد کے ساتھ ہونے جا رہا تھا۔ آخرکار خون کی الٹیاں کرتے کرتے نور محمد ملامتوں پریشانیوں مایوسیوں اور زندگی کی تمام محرومیوں سے چھٹکارہ پا گیا اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔
حیات بی بی کی عمر کا پندرواں سال شروع ہوچکا تھا۔ باپ کا سہارا تو ایک مدت ہوئی چھن چکا تھا۔ اب حیات بی بی کی اماں بھی گھٹنوں جوڑوں کے درد کی وجہ سے ہائے ہائے کرکے اٹھتی بیٹھتی رات کو دیر تک تھکی ہوئی حیات بی بی کی اماں دردوں سے کراہتی رہتی۔ حیات بی بی اکثر اپنی اماں کے پیر دباتے ہوئے اماں سے کہتی کہ اماں اب تو کام پہ مت جایا کر اپنے محلے کے گھروں کا ہی تو کام ہے بس اب تو یہ ذمہ داری مجھے سونپ دے مگر اس کی اماں ہمیشہ اپنی بیٹی کے سر پہ شفقت بھرا ہاتھ پھیرتی اور ہر بار اسے ٹال دیتی۔ اب اکثر حیات بی بی کی اماں کو ہلکا ہلکا بخار رہنے لگا کبھی کبھی شدید کھانسی کا دورہ بھی پڑ جاتا۔ آج جب حیات بی بی اور اس کی اماں چارے والی مشین پہ بھینس کے لیے چارا بنا رہی تھیں تو حیات بی بی کی اماں کو وہی نورمحمد جیسی خون کی الٹیاں آئیں۔ آج تو حیات بی بی کی اماں کی طبیعت بہت زیادہ ہی خراب تھی۔ خون کی الٹیوں کے ساتھ ساتھ اس کی ناک اور آنکھوں سے پانی بھی نکل رہا تھا۔ حیات بی بی بہت ڈر گئی۔ محلے کے ڈاکٹر جمیل نے حیات بی بی سے کہا حیات بی بی یہ تمھارے ابا والی بیماری تمھاری اماں کو لگ چکی ہے۔ تمھاری اماں کو ٹی بی ہے۔ اسے فوراََ لاہور کے بڑے ہسپتال گلاب دیوی لے جاؤ۔ حیات بی بی حیران تھی کہ ابا والی بیماری اماں کو کیسے لگ گئی۔ ڈاکٹر جمیل نے کہا حیات بی بی گلاب دیوی ہسپتال میں تم اپنا بھی ٹی بی کا ٹیسٹ لازمی کروا لینا۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو مگر مجھے لگتا ہے یہ بیماری اب تمھاری موروثی بیماری بن چکی ہے۔
حیات بی بی نے لاکھ کوشش کی بڑی منتیں کیں۔ مگر حیات بی بی کی اماں گلاب دیوی ہسپتال جانے پہ کسی طور بھی راضی نہ ہوئی۔ اسے تو بیٹی کی فکر لاحق تھی۔ جوان بیٹی کا اس کے سوا دنیا میں کون تھا۔ کون میری بیٹی کا خیال رکھے گا۔ اگر میں آنکھیں میچ گئی تو حیات بی بی کا کیا ہوگا۔ دنیا میں مسیحاؤں کی کمی نہیں مگر مسیحا تو ہمیشہ ہی ڈھونڈنے پڑتے ہیں لیکن وحشی درندے خون خوار بھیڑیے انسانوں کی شکل میں شیطان تو ہر موڑ پہ اپنی درندگی اور شیطانیت کا جال پھیلائے کھڑے ملتے ہیں۔ لاوارث عورتوں کی مجبوریوں کمزوریوں اور محرومیوں کا فائدہ اٹھاتے مردوں کی شکل میں جلاد غلیظ لوگ ہر معاشرے ہر شہر ہر گلی اور محلے میں نہ صرف عام مل جاتے ہیں بلکہ شرافت کا لبادہ اوڑھے یہ معتبر لوگ عورتوں کے جسموں کے کئی طرح کے گھناؤنے کاروبار بھی کرتے ہیں۔
حیات بی بی کی اماں نے کوئی اپنے جیسا غریب لڑکا ڈھونڈ کر حیات بی بی کے ہاتھ پیلے کرنے کا پکا ارادہ کر لیا۔ جب حیات بی بی کی اماں نے اپنا ارادہ محلے کی عورتوں کو بتایا جب اس نے بتایا کہ میرا بوڑھی کا کیا بھروسہ کب مر جاوں۔ کوئی اچھا سا لڑکا ڈھونڈ نے میں میری مدد کرو، سب نے اس کی مدد کرنے کی حامی بھر لی۔
اپنا کچا پکا مکان بھی اس لڑکے کے نام کر دوں گی جو میری بے سہارا بیٹی سے بیاہ کرے گا تو محلے کی عورتوں نے خدا ترسی کرنے کا اور حیات بی بی کے لیے کوئی محلے کا ہی لڑکا ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا۔ چند ہی دنوں میں تندور والے دتو ملنگ کے بیٹے ماکھے سے اس شرط پہ حیات بی بی کی شادی طے پاگئی کہ شادی کے بعد ان کا مکان دتو ملنگ کے بیٹے ماکھے کا ہوگا۔ ماکھا چرس اور افیون کا عادی مجرم تھا۔ مکان کے لالچ میں وہ فوراََ ہی شادی کے لیے رضامند ہوگیا۔ ماکھے کو فارغ رہنے اور ماں باپ کو مارنے پیٹنے کی عادت تھی۔ ماکھے کے اماں ابا نے تو اپنی جان چھڑوائی تھی کہ کسی طرح تو ماکھا سدھر جائے مگر ماکھا تو کیا سدھرتا حیات بی بی کے آنے سے ماکھے کے ماں باپ کا بوجھ بڑھ گیا۔ اب بے چاری حیات بی بی سارا دن اپنے سسر دتو ملنگ کے ساتھ تندور پہ کام کرتی اور دو وقت کی روٹی کھاتی۔
ادھر حیات بی بی کی اماں کی طبیعت بہت خراب رہنے لگی ٹی بی کے مرض نے حیات بی بی کی اماں کو مکمل طور پہ اپنے شکنجے میں جکڑ لیا خون کی الٹیاں کھانسی کے دورے مسلسل رہنے لگے اور پھر ایک دن اپنی بھولی بھالی بیٹی کو دکھوں کے تندور میں جھونک کر حیات بی بی کے ابا کی طرح اس کی اماں بھی جہان فانی سے کوچ کرگئی اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔
جیسے ہی حیات بی بی کی امی نے اپنی سلوٹوں والی بوڑھی آنکھیں بند کیں ماکھے نے اپنا چھوٹا موٹا سامان جو بھی حیات بی بی کی امی نے بھینس بیچ کر اپنی بیٹی کو جہیز میں دیا تھا اٹھا کر حیات بی بی کی اماں والے گھر میں شفٹ کر لیا۔ ایسا لگتا تھا ماکھا تو شاید پہلے ہی اس انتظار میں تھا کہ کب اس کھانستی ہانپتی خون کی الٹیاں کرتی بڑھیا سے چھٹکارا ملے اور وہ اس گھر میں براجمان ہو۔ جب سے ماکھے نے حیات بی بی کی اماں والے مکان میں رہائش اختیارکی تھی ماکھے کے اماں ابا اب کم ہی حیات بی بی کے گھر آتے نہ ہی ماکھا حیات بی بی کو کچھ خرچ دیتا ماکھے کو اپنے نشے پانی سے ہی فرصت نہ ملتی اب تو ماکھے نے گھر کے برتن تک بیچ ڈالے اکثرحیات بی بی کے ساتھ بلا وجہ مارپیٹ کرنا ماکھے کا وطیرہ بن چکا تھا شاید وہ حیات بی بی سے کوئی بات منوانا چاہتا تھا۔ ماں باپ کے مر جانے سے حیات بی بی کے دن یتیم اور ماکھے جیسا جیون ساتھی مل جانے سے راتیں بیوہ ہوگئی تھیں۔
ماکھے کے ہیرونچی شرابی افیمی دوست ماکھے کے ساتھ اس کے گھر آنے لگے۔ زندگی نے ایک نیا موڑ لیا۔ حیات بی بی نے اب ماکھے کا ایک نیا روپ دیکھا۔ یہ تو حیات بی بی کو پتہ تھا کہ ماکھا ہیروئن شراب چرس کا عادی مجرم ہے اپنا نشہ پانی پورا کرنے کے لیے ماکھا چھوٹی موٹی چوریاں بھی کرتا ہے۔ مگر ماکھے کے اس روپ کا اسے نہ تو پتہ تھا اور نہ ہی اندازہ تھا کہ اس کا مجازی خدا ماکھا اس قدر نیچ گھٹیا اور انسانیت سے گرا ہوا شخص ہے۔
حیات بی بی کے خاوند ماکھے نے جھورے سلفی سے پانچ سو روپے لیے تھے۔ جھورے سلفی نے چرس والے سگریٹ کا آخری کش لگاتے ہوئے حیات بی بی کو بتایا کہ وہ اس کے خاوند کو رقم ادا کرکے آیا ہے پورے پانچ سو روپے۔ جھورا سلفی جا چکا تھا۔ پٹھے کی الانی چارپائی پہ لیٹی بے بسی کی تصویر حیات بی بی کانوں کی بنی چھت پہ لگے مکڑی کے جالوں کو دیکھ رہی تھی یا شاید اس کی پلکوں پہ تیرتے پانی نے اس کی آنکھوں پہ مکڑیوں کے کئی جالے بن دیے تھے۔ حیات بی بی کے بہتے ہوئے معصوم بے گناہ اشک پلکوں سے رخسار کا سفر طے کرتے ہوئے زمین میں جذب ہو رہے تھے۔ اس سارے سفر میں حیات بی بی کے بہتے ہوئے اشکوں کے منہ زور طوفان کسی اصلی مجرم کو ڈھونڈ رہے تھے۔