بہت عجیب دن تھے رکا رکا سا موسم نہ برسات نہ ہی گرم لو۔ دھوپ میں بیٹھو تو گرمی کسی دیوار نیم یا کیکرکے درخت کے نیچے ٹھنڈ۔ بے روزگاری غربت افلاس نے بھی خوب جکڑا ہوا تھا۔ محنت مزدوری کرکے نبیل کے ابا کہاں تک آٹھ بچوں کا پیٹ پالنے کے ساتھ ساتھ نبیل اور اس کے بہن بھائیوں کی تعلیم کا ایک اضافی بوجھ بھی سہتے۔ کتابوں کاپیوں کا خرچہ پورا کرنے کے لیے نبیل نے بھی سکول سے واپس گھر آکر کچھ محنت مزدوری کرنے کا سوچا۔ نبیل کے ابا بے شک اس چھوٹی عمر میں محنت مزدوری والی سوچ کے خلاف تھے، لیکن نبیل نوعمری میں ہی گھر کے حالات، تنگدستی اور اپنی تعلیمی ضرورتوں کے پورا نہ ہونے سے حساس ہوگیا تھا۔ نبیل کے ابا اور اماں چاہتے تھے کہ نبیل پڑھ لکھ جائے۔ اچھا انسان بن جائے۔ نبیل کے ابا کا خیال تھا جو بچے چھوٹی عمر میں کام دھندے میں پڑ جاتے ہیں وہ بگڑ جاتے ہیں۔ فیکٹریوں کارخانوں لاری اڈوں ورکشاپوں میں کام کرنے والے اور گلی محلوں میں مزدوری کرنے والے بچوں کے دل و دماغ پہ برائیاں گناہ اور معاشرتی جرائم کے نت نئے طریقے آسمان سے بارش کی طرح برسنے لگتے ہیں۔ نبیل کے ابا کی یہ سوچ کسی حد تک درست بھی تھی مگر نبیل کیا کرتا۔ جو تھوڑے بہت پیسے نبیل کی اماں کو خرچ ملتا ان پیسوں سے بمشکل گھر کا تیل، نمک اورسبزی پوری ہوتی۔ ہمسائی ناہید خالہ بھی اکثر نبیل کو کہتی پُتر تیرے ابا اب بڑھاپے کی منازل طے کر رہے ہیں۔ تم اگر انھیں مکمل آرام نہیں دے سکتے تو تھوڑا بہت کام کاج محنت مزدوری کرکے ان کا ہاتھ بٹا سکتے ہو ان کا بوجھ ہلکا کرسکتے ہو۔ نبیل کی پڑھائی اور ہر وقت نبیل کا سر جھکائے کتابوں سے لفظوں کے موتی چنتے رہنا صرف خالہ ناہید کو ہی نہیں بلکہ کئی دوسرے اہل محلہ کو بھی فضول اور نبیل کا نکھٹو پن لگتا۔ خالہ ناہید کے دونوں بیٹے فضلو اور جیرا سائیکل پہ ڈبے باندھ کر دیہاتوں بستیوں میں چوزے بیچنے جایا کرتے تھے۔ اس دؤر کے حالات اور وقت کے مطابق فضلو اور جیرا پُر آسائش زندگی بسر کر رہے تھے۔ جمعے والے دن وہ چھٹی کرتے اور سارا دن چوک میں رکھے استاد اچھو کے بلیئرڈ پہ گزارتے۔ سارا دن بلیئرڈ پہ شرطیں لگا کر ٹوکن کھیلتے۔ ہوٹل سے چائے پیتے خوب ہلہ گلہ کرتے اکثر دوپہر کو شہر کے کسی اچھے ہوٹل سے کھانا منگوا کر اپنے جواری دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر نہ صرف خود کھاتے بلکہ بلیئرڈ پہ کھڑے دوسرے لونڈوں کو بھی کھلاتے۔ ان کی بظاہر پُر لطف زندگی کسی بھی کم عمر کم عقل اور بچگانہ ذہن کے مالک لڑکے کو مرعوب کرنے کے لیے کافی تھی۔
جیسے تیسے نبیل نے بھی اماں اور ابا کو راضی کر لیا۔ نبیل نے بھی کرائے کی سائیکل پہ گتے کے ڈبے باندھ لیے۔ اپنی سائیکل خریدنے کے لیے نبیل کے پاس پیسے نہیں تھے۔ کرائے کی سائیکل کا مشورہ بھی خالہ ناہید نے ہی دیا تھا۔ تین دن تک نبیل ایک چوزہ بھی نہ بیچ سکا بلکہ سائیکل کا کرایہ بھی نہ ادا کر سکا۔ گلیوں محلوں بستیوں دیہات میں جا کر چوزے لے لو کی آواز لگانا نبیل کے بس میں نہ تھا۔ ایک عجیب سا خوف نبیل پہ طاری ہو جاتا۔ نبیل کے ہونٹوں پہ سوکھے کے مارے تالاب میں جمی پیپڑیوں سی خشکی جم جاتی۔ نبیل کی روح کانپنے لگتی۔ کئی دفعہ نبیل کوشش کرتا کسی آتش فشاں پہاڑ کے منہ زور لاوے کی طرح ایک جوش مارتی ہوئی آواز اس کے بدن میں جھرجھری پیدا کرتی ہوئی باہر نکلنے کی کوشش کرتی مگر یہ چوزے لے لو کی آواز نبیل کے حلق میں آکر اٹک جاتی وہ خود کو قوت گویائی سے محروم محسوس کرتا۔ نبیل سارا سارا دن گلیوں بازاروں میں کھڑا رہتا لیکن اس سے کوئی بھی چوزے نہ لیتا۔ اس کی وضح قطہ ہی چوزے بیچنے والوں جیسی نہیں تھی۔ سارے دن کا تھکا ہارا گھر آتا تو ابا کی ڈانٹ نبیل کا انتظار کر رہی ہوتی۔ رات دیر تک دیے کی ٹمٹماتی روشنی میں جتنا ممکن ہوتا وہ بیٹھ کر پڑھ لیتا۔ اور اگلے دن پھر سائیکل پہ ڈبے باندھ کر گلیوں محلوں میں نکل جاتا۔
آج بھی دوپہر کے وقت نبیل ایک محلے میں دیوار کے ساتھ سائیکل کی ٹیک لگائے سہما ہوا پریشان چپ چاپ چوں چوں کرتے گتے کے ڈبوں میں قید مسافر چوزوں کو باجرہ ڈال رہا تھا۔ وہ چوک میں کھڑا ناجانے خیالات کی کون سی گتھیاں سلجھا رہا تھا کہ گدھا ریہڑی پہ سبزی بیچتی بیس بائیس سال کی ایک لڑکی جس کے ساتھ اس کا آٹھ دس سال کا چھوٹا بھائی بھی تھا نبیل کے پاس آکر رکی۔ جب اس کے بھائی نے آلو، پیاز، مٹر، گوبھی، دھنیا، ادرک لے لو کی آواز لگائی، تو دیکھتے ہی دیکھتے گلی کی کافی عورتیں باہر نکل آئیں۔ کچھ نے سبزی لی اور کچھ نے نبیل کی بھی بوہنی کروائی مطلب ایک دو عورتوں نے نبیل سے چوزے بھی خرید لیے۔ یہ تو کمال ہوگیا نبیل کے چوزے بک گئے واہ۔ اب نبیل اس سبزی والی کے ساتھ ہولیا۔ جس گلی میں آلو لے لو گوبھی لے لو کی صدائیں لگاتے وہ بہن بھائی جاتے نبیل بھی چپ چاپ سائیکل کھینچتا ہوا اس گلی میں پہنچ جاتا۔ کسی سہارے سے اپنی لدی ہوئی سائیکل لگا کر ایک طرف جا کے کھڑا ہوجاتا۔
اس دن نبیل کے کافی چوزے بک گئے۔ نبیل نے بھی اس سبزی والی سے کچھ مولیاں خرید لیں اور اس ریہڑی والے بہن بھائیوں کے پیچھے پھرتا رہا۔ مولیاں چرتے ہوے چوزے بیچتا رہا۔ اب یہ نبیل کا روز کا معمول بن گیا اس طرح نبیل کو آواز بھی نہ لگانی پڑتی اور اس کے چوزے بھی بکنے لگے۔ کچھ دن اسی طرح گزرے۔ ادھر نبیل کا میٹرک کا رزلٹ آیا ادھر پولیس میں کانسٹیبل کی بھرتی آگئی۔ نبیل پولیس میں بطور کانسٹیبل بھرتی ہوگیا۔ نبیل اکثر اپنے ٹرینی دوستوں کو اپنے روم میٹس اور پلاٹون میٹس کو اس سبزی والی کے بارے بتاتا۔ اس کی آنکھوں کا تذکرہ کرتا۔ نبیل اس گوری چٹی لڑکی کو کسی میلے کچیلے پانی کے جوہڑ میں کھلے کنول سے تشبیح دیتا۔ پتہ نہیں کیوں نبیل اس سبزی والی لڑکی کو بھول ہی نہیں پاتا تھا۔ نہ تو نبیل نے اس لڑکی سے کبھی کوئی بات کی نہ ہی اس سبزی والی نے کبھی نبیل کی طرف دیکھا۔ وہ ہمیشہ اپنے کام میں مصروف رہتی۔ دوپٹے میں لپٹا ہوا اس کا بھرا بھرا حسن اسے معتبر بناتا تھا۔ اس سبزی والی کی آنکھوں میں حیاء تھی۔ جب وہ اپنے دوپٹے سے پیشانی ہونٹوں اور رخسار سے پسینہ صاف کرتی تو صبح صادق کے افق پہ ابھرتے سورج کی کرنوں کی طرح اس کا روپ دھکنے لگتا۔ ایسا لگتا کسی کوئلوں والے ٹرین کے انجن میں راکھ بنتے بجھتے کوئلوں کو اچانک ٹرین کے ڈرائیور نے پریشر سے ہوا دے دی ہو۔ نبیل نے اس سبزی والی کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ بنانے والے نے اسے بہت ناپ تول کے بنایا تھا۔ کوئی بھی حسن پرست شہزادہ اسے اپنی سلطنت کی ملکہ بنا لیتا۔ کاش حسن بانٹتے وقت سب کا پروردگار چند سکے بھی اس کرماں جلی کے مقدر میں لکھ دیتا۔ بے شک مفلسی اور محرومیوں کے سائے اس کے حسن کو ماند کیے ہوئے تھے مگر وہ غریب ہونے کے ساتھ بہت خودار لڑکی تھی۔ اس کی آواز میں مردانہ رعب تھا۔ وہ نبیل سے کہیں ذیادہ بہادر تھی۔ اگر اسکا اور اس کے بھائی کا آسرا نہ ملتا تو شاید نبیل کبھی چوزے نہ بیچ پاتا اپنی کرائے کی سائیکل کا کرایہ تک نہ ادا کرپاتا۔
نبیل کے بیچ کی ٹریننگ مکمل ہوچکی تھی۔ پورے نو ماہ کی ٹریننگ پوری ہونے کے بعد انھیں کچھ چھٹیاں ملی تھیں۔ چھٹیوں کے دنوں میں، نبیل ہر روز کرائے کی سائیکل لیتا مگر اس بار اس کی سائیکل پہ چوزوں کے ڈبے نہیں ہوتے تھے بلکہ اس کا مقصد اس سبزی بیچنے والی کو ڈھونڈنا ہوتا۔ نبیل ان گلی محلوں میں جاتا جہاں وہ لڑکی سبزی بیچا کرتی تھی۔ یہ تو اللہ کو ہی پتہ ہے کہ نبیل اسے کیوں ڈھونڈنے جاتا تھا۔ بہر حال وہ اسے ڈھونڈنے بھی جاتا تھا اور اسے دیکھنا بھی چاہتا تھا۔ شاید اسے کچھ کہنا چاہتا تھا۔ نبیل کے دل میں اس سبزی والی کے لیے ہمدردی تھی یا محبت یہ بھید کبھی نبیل پہ بھی نہ کھل سکا۔ شاید نبیل اسے بتانا چاہتا تھا کہ تم بہت خوبصورت ہو۔ تمھارا مقدر گدھا ریہڑی پہ سبزی بیچنا نہیں بلکہ کسی دل پہ حکومت کرنا ہے۔ لیکن وہ لڑکی اسے ان گلیوں بازاروں میں نہ ملی۔ نبیل نے یہ سوچ کر دل کو تسلی دے لی کہ وہ بہت خوبصورت تھی شاید کسی نے اس سے شادی کرلی ہوگی۔ ادھر نبیل کی چھٹیاں ختم ہوگئیں۔ اس نے پولیس لائن جا کر اپنی حاضری کرلی۔
خوش قسمتی سے نبیل کی پہلی ڈیوٹی اسی کے شہر میں لگ گئی نبیل اپنے ہی علاقے کے تھانے میں تعینات ہوگیا۔ سب انسپکٹر لطیف صاحب نے تمام نفری کو جلدی جلدی تیار ہونے کو کہا۔ کوئی ریڈ تھا۔ کہیں چھاپہ مارنے جانا تھا۔ نبیل بھی ریڈ پارٹی میں شامل تھا۔ پولیس پارٹی نے ایک جسم فروشی کے اڈے پہ چھاپہ مارا چار لڑکے ایک نائکہ۔ چاروں لڑکیاں انسانیت کی تذلیل کرتے قابل اعتراض حالت میں گرفتار ہوئے۔ اسے تو شاید کوئی چوزے بیچنے والا لڑکا یاد بھی نہیں تھا لیکن نبیل کو وہ لڑکی ہو بہو یاد تھی۔ چلملاتی دھوپ جیسا آنکھوں کو خیرہ کرتا اس کا روپ۔ شرمیلی آنکھیں کشادہ پیشانی ہرن جیسا اٹھا ہوا سینہ کانوں کی لو جیسے نرم و ملائم ہونٹ ایک سراپاء حسن وہ سبزی والی جس کے ہاتھ سے نبیل نے مولیاں محض اس لیے خریدی تھیں تاکہ اسے قریب سے دیکھ سکے۔ میلے کپڑوں میں ملبوس وہ جل پری کبھی بھی نبیل کی آنکھوں سے اوجھل نہ ہوئی تھی۔ ایک چوزے فروش لڑکا اسے یاد ہوتا بھی کیسے انھوں نے کبھی آپس میں بات ہی نہیں کی تھی۔ وہ تو نظریں اٹھا کر دیکھتی بھی نہیں تھی۔ اور ایک خودار شرم و حیاء کی پیکر لڑکی سے نبیل بات کرتا بھی تو کیسے کرتا۔ ویسے بھی نبیل کو عزت نفس اپنی خواہش سے کہیں زیادہ عزیز تھی۔ آج بھی اس نے صرف ایک بار نظریں اٹھا کر نبیل طرف دیکھا جب نبیل نے اسے بازو سے پکڑ کر سرکاری گاڑی میں بٹھایا۔ آلو، پیاز، شلجم، مٹر بیچنے سے جسم بیچنے تک کا سفر کیسے طے ہوا یہ ایک معمہ ہے۔ جس کی یاد میں نبیل کی پوری نو ماہ کی ٹریننگ کا ایک ایک لمحہ حسین تھا۔ جس کے دم سے اچانک نبیل کی دنیا آباد اور خوبصورت ہوگئی تھی۔ پورے نو ماہ جس سے بات کرنے کے نبیل بہانے تراشتا رہا وہ چند روپوں کے عوض ہر روز بکتی رہی۔ نبیل کے سامنے اس کے سپنوں کی راجکماری ایک ایسے روپ میں آئی کہ نبیل چاہ کر بھی کوئی اظہار نہیں کرسکتا تھا۔ وہ آج دو چار سوروپے میں دستیاب تھی۔