اس کا نام سہیل ملک تھا۔ ہم پولیس میں اکٹھے ہی بھرتی ہوئے تھے۔ سہیل کا قد چھ فٹ اور چار انچ تھا۔ چوڑا سینہ لمبے لمبے بازو کھردرے ہاتھ، اس کے پاؤں اس قدر بڑے تھے کہ بارہ نمبر کا جوتا بڑی مشکل سے اس کے پیروں میں پورا آتا۔ دوران ٹریننگ سہیلا بطور پریڈ کمانڈر پوری نفری کی نمائندگی کرتا رہا۔ جب وہ پریڈ میں بطور گائیڈ کھڑا ہوتا تو باقی لڑکے اس کے ساتھ کھڑے ایسے لگتے جیسے زرافے کے ساتھ خرگوش۔ جب ہم ٹریننگ کرکے واپس لاہور آگئے تو ایک دن یونیورسٹی لاہور کے طالب علموں نے ہڑتال کر دی جو کافی دن جاری رہی۔ ایشو یہ تھا کہ کیمپس کے پل سے ٹھوکر کی طر ف نہر پر چھوٹے چھوٹے پل بنے ہوئے تھے۔ جن پلوں پر لڑکے موٹر سائیکل بھگا کر نہر عبور کرتے اور دائیں بائیں آنے والی ٹریفک متاثر ہوتی حادثات بھی ہو جا تے اور اکثر ان حادثات کی وجہ سے بہت سارا جانی نقصان بھی ہوجاتا۔ لاہور انتظامیہ نے نہر سے سارے پل ہٹانے کا ارادہ کیا جو یونیورسٹی انتظامیہ کو یا شاید طالب علموں کو ناگوار گزرا لہذا تمام لڑکوں نے ہڑتال کردی۔ لڑکوں نے نہر روڈ بلاک کردی۔ دوچار دن تک مذاکرات ہوتے رہے جو بے سود رہے۔ مجبوراََ لاہور انتظامیہ کو طاقت کا استعمال کرکے لڑکوں کو وہاں سے بھگانا پڑا۔ ٹیئر گیس شیل استعمال کیے گئے۔ پولیس والے بھی زخمی ہوئے اور چند طالب علم بھی دھلائی کرواکر سرف ایکسل سے دھلے کپڑے کی طرح نکھر گئے۔ بہرحال پولیس نے دودن کی مشقت کے بعد نہر روڈ کو ٹریفک کے لیے کھلوا دیا۔ اب پنجاب کانسٹیبلری کی وہاں مستقل ڈیوٹی لگ گئی۔ پی سی کی ایک دو پلاٹون وہاں چوبیس گھنٹے موجود رہنے لگیں۔ ہم اکثر صبح سات بجے والی شفٹ میں وہاں جایا کرتے اور تین بجے تک وہیں یونیورسٹی کے پلاٹس میں پڑے رہتے۔ میں نے تاش کی گیم بھابی وہیں کھیلنا سیکھی۔ مظہر۔ گاما۔ سہیلا۔ اعجاز۔ مبشر۔ ہم ہمیشہ اکٹھے ہی ہوتے۔ ویسے بھی ہمیں حکم تھا کہ ہم لوگ یونیورسٹی میں ٹولیوں کی شکل میں رہیں تاکہ کوئی اکیلا پولیس والا طالب علموں کے ہتھے نہ چڑھ جائے۔ ہم میں سہیلا جسامت قد اور حرکات و سکنات کی وجہ سے منفرد تھا۔ ہم سہیلے کو ڈنگر کہا کرتے تھے۔ کھانے بیٹھتا تو سب کے حصے کا کھا جاتا۔
ایک دفعہ ایک بجے دن ہم نے یونیورسٹی کے گیٹ کے سامنے لگی ریڑھی سے کھانا کھانے کا پروگرام بنایا۔ جب سہیلا چوتھی بار گریبی لے چکا تو ریڑھی والے نے کہا " بھائی اب نان ختم ہوگئے ہیں"حالانکہ ہمارے سامنے نان سپلائی کرنے والا لڑکا اسے دو شاپر نان دے کر گیا تھا جو اس نے ٹینکی میں رکھے تھے۔ سہیلے نے کہا " پائی غصہ کرگیا ایں میں تے مزاق لگا ساں" (بھائی غصہ کرگئے ہو میں تو مزاق کر رہا تھا) مطلب چنے کے ساتھ بارہ نان کھا جانا سہیلے کے لیے مزاق تھا۔ سہیلا بہت زندہ دل اور ملنسار انسان تھا۔ اس کی زندگی میں تبدیلی تو اس وقت آئی جب زمین پہ بیٹھ کر تاش کھیلتے سپاہی سہیلے ڈنگر پہ یونیورسٹی کی ایک میڈم فدا ہوگئی۔ کچھ دن تو سہیلے نے ہم سے چھپایا، مگر" دائیاں کولوں کدی ٹیڈھ وی لکے نیں" بہت جلد ہمیں سہیل کے معاشقے کا پتہ چل گیا۔ سہیل جو کبھی بوٹ پالش نہیں کرتا تھا۔ اس کی وردی کی قمیض پر گرمی اور پسینے سے طرح طرح کی ڈب کھڑبی نقوش نگاری اور کشیدہ کاری ہوئی ہوتی تھی۔ جب کبھی ہم کہتے سہیلے بال بھی کٹوایا کر تو وہ کہتا پائی جواں رکھیا ں نے۔ بے شک سہیلا صفائی پسند نہیں تھا۔ مگر اپنا جگر تھا۔ ہمارا وقت سہیلے کے ساتھ ہی اچھا گزرتا۔ اب سہیلے کی وردی کو مائع لگنے لگی۔ اس کے بال بھی اب سلیقے سے کٹے ہوتے۔ پرفیوم اور باڈی سپرے بھی خریدنے لگا۔ ریڑھی والے کی صف پر بیٹھ کر بارہ بارہ نان کھاجانے والا سہیلا اب ہمارے ساتھ زمین پر بیٹھ کر تاش کھیلنے میں بے عزتی محسوس کرنے لگا۔ روزانہ ایک مقرر وقت پر وہ ہمیں اکیلا چھوڑ کر یونیورسٹی کی کینٹین پر چلا جاتا۔ کچھ دن بعد سہیل نے اپنی ڈیوٹی بھی تبدیل کروا لی۔ سہیل اب رات والی شفٹ میں نوکری کرتا۔ ایک دو بار سہیل کو ہم نے تھری پیس سوٹ میں ملبوس یونیورسٹی کی کنٹین پر بیٹھے دیکھا۔ ہم جب شرارت کے لیے آگے بڑھتے تو ہاتھ جوڑ کر کبھی آنکھ کے اشارے سے ہمیں دور رہنے کی گزارش کرتا۔
وقت گزرتا رہا کوئی تین ماہ تک یونیورسٹی میں ہماری ڈیوٹی رہی۔ ان تین مہینوں میں سہیلا ڈنگر اب ملک سہیل ہوگیا۔ میرا پنجاب کانسٹیبلری کا عرصہ ختم ہوگیا اور میر ا تبادلہ لاہور سے بہاولپور ہوگیا۔ میں نے ایلیٹ کورس کرلیا اور اپنی دنیا میں گم ہوگیا۔ مجھے اب یاد بھی نہیں تھا کہ میرا کوئی دوست سہیلا ڈنگر بھی ہوتا تھا بس کبھی کبھار لاہور کی یاد آتی تو سارے دوست یاد آجاتے گامے کے علاوہ اسپیشلی کبھی کوئی دوست یاد نہ آیا تھا۔ دوہزار چودہ میں میں نے بہاولپور ایلیٹ کی طرف سے ٹریننگ آف ٹریننر کورس کرلیا اور میں بطور ویپن انسٹرکٹر ایک بار پھر ٹرانسفر ہوکر لاہور واپس آگیا۔ اس دن کسی کام کے سلسلے میں مجھے مال روڈ جانا تھا۔ میں رکشے میں بیٹھ کر ٹھوکر پہنچا تو دیکھا کہ پولیس کی وردی میں ملبوس ایک لمبا تڑنگا شخص ٹھوکر نیاز بیگ نہر پر بنے رنگ روڈ کے پل کے نیچے زمین پر لیٹا ہوا ہے۔ ازراہ ہمدردی اور ایک پولیس والا ہونے کے ناطے میں اس شخص کے پاس پہنچا دیکھا تو سہیلا ڈنگر۔ میں نے پرجوش ہوکر کہا اوئے سہیلے۔ وہ سہیلا جو ہمیشہ چہکتا رہتا تھا۔ ہنستا رہتا تھا۔ جو کہا کرتا تھا تم لوگ میرے یار نہیں میرے جینے کا سہارا ہو۔ جو کہا کرتا تھا کاش وہ وقت کبھی نہ آئے جب ہم سب دوست جدا ہوجائیں۔ اس سہیلے نے مجھے دیکھ کر کچھ خاص تاثر نہ دیا۔ بلکہ سلام لینے کے لیے لیٹے لیٹے اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ مجھے لگا شاید اس نے مجھے پہچانا نہیں۔ میں نے لیٹے ہوئے سہیلے کو پرانے انداز میں پاؤں سے ٹھوکر ماری اور کہا سہیل پہچانا نہیں مجھے؟ تو اس نے کہا " مریاں نوں کیوں مارنا ایں نوید " جب اس نے میرا نام لیا اور انتہائی نقاہت سے زبان کھولی تو میں اس کے پاس زمین پر ہی بیٹھ گیا۔ میں نے کہا سہیل بوتل نہ پلانا یار اس طرح بے رخی سے تو پیش نہ آؤ۔ اور تم یہ وردی میں ہی زمین پر لیٹے ہوئے ہو۔ خیریت تو ہے ناں؟ کہاں ڈیوٹی ہے آجکل؟ تو وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اور کہنے لگا میں ڈیوٹی پر ہی ہوں۔ سرکار طاہر القادری نے میری ڈیوٹی لگائی ہے۔ لاہور کے تمام ولی دوریش میرے دوست ہیں۔ میرا علاقہ ٹھوکر ہے۔ ہر علاقے میں ایک ولی درویش ہوتا ہے تو میں آجکل ادھر ہوتا ہوں۔ کل میری طاہر القادری صاحب سے ملاقات طے ہے۔ میں زندگی کا راز جان گیا ہوں۔ تم طاہر القادری صاحب سے نہیں ملو گے۔ جو بندہ لاہور میں رہ کر طاہر القادری سے نہیں ملتا وہ بہت بدقسمت ہے۔ پولیس والوں نے مجھے نوکری سے نکال دیا ہے۔ حالانکہ کہ طاہرالقادری صاحب نے فرمایا ہے کہ میں نوکری کے لیے دنیا میں آیا ہی نہیں۔ طاہر القادری، حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش۔ میانی سرکار۔ باباجی واصف علی سرکار سب مجھے ملتے ہیں۔ میں رات انھیں کے ساتھ گزارتا ہوں۔ تم ملنا چاہو گے۔ زندگی کا راز پانا چاہتے ہوتا بتاؤ۔ اور جیب سے شاپر کی ایک چھوٹی سی تھیلی نکال کر نسوار کی طرح دونوں نتھنوں سے کھینچنے لگا۔ پاؤڈر؟ سہیل تم پاؤڈر پیتے ہو۔ میں سہیل سے لپٹ گیا۔ میری آنکھوں میں اشک تیرنے لگے۔ سہیل یہ سب کیا ہے َ؟ میں نے رونی اور بھری ہوئی آواز میں سہیل سے پوچھا۔ سانس کھینچ کر کچھ دیر خاموش رہنے اور اپنے سر کو ایک دوبار جھٹکنے کے بعد سہیل بولا۔ نوید پہلے مجھے سو روپیہ دو۔ سو روپیہ۔۔ یار تجھے ہو کیا گیا ہے۔ مجھے چائے پانی کھانا پوچھنے کے بجائے تم مجھ سے سو روپیہ مانگ رہے ہو۔ میں نے اسے بازو سے پکڑ کر اٹھا لیا۔ اس کی کمر سے مٹی صاف کی گلے سے لگایا۔ قریبی ہوٹل پر لے گیا۔ اسے کھانا کھلانا چاہ مگر وہ سو روپیہ ہی مانگتا رہا۔ کہنے لگا نوید جانتے ہو اس پڑھے لکھے باشعور معاشرے نے میرے ساتھ کیا کیا؟ میں نے کہا بتا میرے یار، بتا مجھے۔ اس معاشرے نے تیرے ساتھ کیا کیا۔ تو وہ کہنے لگا۔ میری بیوی نے مجھ سے بچے چھین لیے۔ میرے دو بچے تھے۔ ناجانے کس حال میں ہوں گے۔ وہ تو پروفیسر تھی ایک سپاہی کے ساتھ کیسے گزارا کرتی۔ مگر وہ تو میرے بچے تھے۔ میں تو ان کا باپ ہوں۔ اس کے بھائی امیرتھے۔ جب اس نے یونیورسٹی میں مجھے پسند کیا گھر والوں سے چوری میرے ساتھ شادی کی اس وقت بھی تو میں سپاہی ہی تھا۔ پانچ سال وہ میرے ساتھ رہی۔ میرے اپنے گھر والوں نے مجھے گھر سے نکال دیا۔ میری ماں سوتیلی تھی۔ کھانے میں ملا کر مجھے نشہ دیتی رہی۔ مجھے ہیروئن کے نشے پر لگانے والی میری سوتیلی ماں ہی ہے۔ میرے حصے کی جائیداد ہڑپ کرنا چاہتی تھی،۔ جب میری بیوی کو پتہ چلا کہ میں ہیروئن کا عادی ہوگیا ہوں تو چلی گئی۔ اپنی پڑھی لکھی دنیا میں۔ بس شادی کے دوسال ہی وہ خوش رہی۔ اس کے بعد ناجانے کیوں مجھ سے نفرت کرنے لگی۔ اسے میری بالکل بھی ضرورت نہ تھی۔ حرامی نکلی سالی۔ یار مجھے ان کی ضرورت تھی۔ اس حالت میں مجھے ان کی ضرورت تھی کہ نہیں تم بتاؤ۔ اچھا سو روپیہ لازمی دینا بھول نہ جانا۔ میں نے پانچ سو کا نوٹ نکال کر سہیل کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔
میں چاہتا تھا سہیل میرے ساتھ بہت ساری باتیں کرے۔ شاید میں کسی حقیقت تک پہنچ جاؤں شاید میں سہیل کو اس حال تک پہنچانے والوں تک پہنچ سکوں۔ شاید میں جان سکوں کہ اس کی اس حالت کے اصلی ذمہ دار کون ہیں؟ مگر وہ میرے ہاتھ سے پیسے چھیننے کی طرح پکڑ کر فوراََ وہاں سے اٹھ گیا۔ میں اسے روکتا ہی رہا۔ مگر اس نے پیسے مل جانے کے بعد پلٹ کر بھی میری طرف نہ دیکھا۔ بس جاتے جاتے اتنا کہہ گیا نوید میرے گھر آنا۔ لازمی آنا۔ اور چلا گیا۔ میں نے سہیل کا گھر دیکھا ہوا تھا۔ کیوں کہ جب ہم اکٹھے ڈیوٹی کیا کرتے تھے تو اکثر سہیل کے گھر جایا کرتے تھے۔ آج بھی میں جس کام سے لاہور جا رہا تھا اسے ترک کردیا اور سیدھا سہیل کے گھر جاپہنچا۔ سہیل کا بھائی فاروق اپنی دکانوں کی مارکیٹ کے باہر کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے جاکر فاروق سے اپنا تعارف کروایا۔ فاروق نے مجھے پہچانا تو نہیں لیکن اتنا ضرور کہا ہاں جب سہیل ٹھیک تھا تو اس کے کافی پولیس والے دوست گھر آیا کرتے تھے۔ میں اس کے بھائی سے بہت کچھ جاننا چاہتا تھا مگر اس نے مجھے بوتل پلا کر کہیں کام جانے کا بہانہ کرکے اجازت طلب کی۔ شاید وہ سہیل کے موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں نے فاروق سے اس کا موبائل نمبر لیا اور کہا فاروق بھائی میں بہاولپور پولیس لائن میں اپنے تعلق سے منشیات کے تدارک کے لیے بنے سرکاری ہسپتال میں رابطہ کرتا ہوں۔ بس مجھے آپ کی اتنی مدد درکار ہوگی جب میں آپ کو فون کروں آپ اس دن سہیل کو کہیں جانے مت دیجیے گا۔ میں اپنے خرچ پر اسے بہاولپور ہسپتال میں داخل کرواؤں گا۔ آپ کو کچھ بھی تکلیف نہیں دوں گا۔ اس کے بھائی نے کہا جی بالکل ہم تو خود چاہتے ہیں کہ اس کا علاج ہوجائے۔ یہ پھر سے ٹھیک ہوجائے۔ اس کی بیوی ہے بچے ہیں جو اسے چھوڑ گئے ہیں۔ اس کی بیوی اب اپنے بھائیوں کے پاس رہتی ہے۔ اس کے بھائیوں نے اپنی بہن کا تبادلہ بھی لاہور سے ان کے اپنے شہر کی یونیورسٹی میں کروا لیا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اجازت لیتا اس کے بھائی نے مجھ سے اجازت طلب کر لی۔ میں نے سہیل کے بھائی کا موبائل نمبر بھی لے لیا اور بنا مانگے اپنا بھی موبائل نمبر اسے دے دیا۔ اب میں دن رات اسی کوشش میں رہتا کہ کسی طرح سہیل کو بہاولپور منشیات کے ہسپتال لے جاؤں۔ اس کا علاج کرواؤں۔ میں نے بہت سارے دوستوں سے رابطے بھی کیے چھٹی لی او ر بہاولپور چلا گیا مریض کی ساری کیفیت ڈاکٹر کو بتائی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا بیٹا جس طرح کی حالت آپ مریض کی بتا رہے ہیں اس کنڈیشن کا مریض یہاں رکھنا کافی مشکل کام ہے لیکن آپ کیوں کے تعلق سے آئے ہیں اور مریض بھی آپ کے بقول پولیس والا ہے تو ہم کوشش کریں گے کہ اگر ذرا برابر بھی چانس ہوا مریض کے ٹھیک ہونے کا تو ہم اسے لے لیں گے۔ آپ ایک بار مریض کو لے آئیں اللہ بہتر کرے گا۔ انشاءاللہ۔
مجھے کوئی بیس دن لگے سارا عمل کرنے میں۔ میں واپس لاہور آیا اور لانگ لیو اپلائی کردی۔ میں اپنی چھٹیوں کے انتظار میں تھا کہ کب مجھے لانگ لیو ملے اور میں سہیل کو بہاولپور لے جاؤں۔ پھر ایک دن مجھے فاروق کے نمبر سے فون آیا۔ فاروق نے مجھے کہا نوید بھائی جس سہیل کو آپ زندگی واپس کروانا چاہتے تھے۔ جس سہیل کو آپ اپنا دوست کہتے تھے۔ وہ بہت بے وفا نکلا وہ دو گھنٹے پہلے ہمیں اپنی بستی کے قبرستان میں مردہ حالت میں پڑا ملا۔ سہیل فوت ہوگیا بھائی جان۔ عصر کی نماز کے بعد اس کی نماز جنازہ ہے۔ کب فاروق نے کال بند کی مجھے پتہ ہی نہ چلا۔ سہیل چلا گیا اور میرے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ بھی نہ بچا۔