خان صاحب ہر سال بڑے ذوق شوق سے قربانی کیا کرتے ہیں۔ پیسے کی ریل پیل ہے لیکن بدقسمتی سے خان صاحب کا ہمیشہ اپنے باپ سے جھگڑا رہتا۔ کسی نہ کسی بات وہ اپنے والد ماجد سے ناراض ہی رہتے۔ اس بار عید قربان پہ میرے دوست خان صاحب نے اونٹ کی قربانی میں حصہ رکھا اور ہم چند دوستوں کو انھوں نے بڑے اہتمام کے ساتھ دعوت میں مدعو کیا ہماراشام کا کھانا ان کے گھر تھا۔ باقی دوستوں کی طرح میں بھی مقررہ وقت پر خان پیلس جا پہنچا۔ کچھ حال احوال کے بعد ہمارے سامنے بڑےبڑے ڈونگوں میں اونٹ کےگوشت کا بناسالن رکھ دیا گیا۔ ساتھ تین جگ آب زم زم ملا پانی تبرک کے طور پر بھر کر رکھ دیے گئے۔ کچھ دوستوں کی طرح میں بھی پہلی بار اونٹ کا گوشت کھا رہا تھا۔ کھانا شروع ہوا ساتھ ادھر ادھر کی باتیں بھی ہونے لگیں۔ میں نے روٹی کا نوالہ توڑتے ہوئے اپنے دوست خان صاحب سے پوچھا یار تمھارے ابایعنی بڑے خان صاحب نظر نہیں آرہے۔ تو وہ مسکرا کر کہنے لگا باباجی۔ " وہی سسر بہو کا جھگڑا جو ہمیشہ ہمارے گھر میں جاری ہی رہتا ہے" سسر بہو کے جھگڑے کا جملہ ایک لطیفے کی طرح تھا۔
آس پاس بوٹیاں توڑتے سبھی صاحبان کھل کھلا کر ہنسنے لگے۔ کچھ نے تو یہاں تک ارشاد فرمادیا۔ "گھر گھر کی لڑائی ہاہاہاہاہا" خان نے کہا بابا جی" وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی بلا وجہ میری بیوی سے ناراض ہیں اور میری چھوٹی ہمشیرہ کے گھر ہیں"۔ میں نے کہا یار خان کتنی غلط بات ہے کہ بڑے خان صاحب آج عید والے دن بھی تم سے ناراض ہیں اور ہمشیرہ کے گھر ہیں۔ تم نے انھیں منایا کیوں نہیں۔ تو خان کہنے لگا۔ " ان کے ماننے والے حالات ہی نہیں ہیں چھوڑو بس یار تم بتاٶ سالن کیسا بناہے"۔ میں نے کہا ہاں سالن تو بہت مزے کا ہے۔ ویسے سالن تھا بھی بہت لذیذ۔ اس نے میری پلیٹ میں بوٹیاں ڈالتے ہوئے "کہا باباجی تم میرے ابے کو جانتے نہیں جس ضد پر اڑ جائیں پھر چاہے کچھ بھی ہو اپنی بات منوا کر ہی رہتے ہیں۔ یار اب میرے بچے جوان ہو رہے ہیں اور ابا ہیں کہ کبھی کسی رشتہ دار سے جھگڑا کبھی کسی رشتہ دار سے لڑائی کب تک برداشت کرے کوئی بہت قربانیاں دی ہیں ابا کی خاطر لیکن اب نہیں ہوتا"
میں نے کہا ہاں یہ بات سچ ہے قربانیاں تو تم نے سچ میں بہت دی ہیں۔ لیکن ایک بات تو بتا جن کی سنت پوری کرنے کے لیے تونے اونٹ کی قربانی میں حصہ رکھا۔ جن کی نسبت سے یہ جگ میں بھرا پانی متبرک سمجھ کر تم نے اونٹ کے گوشت کے ساتھ رکھا ہے کیا تیرے ابا ان ہستیوں سے بھی بڑی قربانی مانگتے تھے کہ تو ان سے ناراض ہے اور منانا بھی نہیں چاہتا۔ جانتا ہے آب زم زم صفامروہ اور قربانی کی تاریخ کیا ہے۔ یار خان حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی سنت تو ہمیں یاد ہے اور یہ سنت پوری کرنے کو ہم ہزاروں روپے خرچ کردیتے ہیں لیکن ان کی قربانی سے ملنے والے سبق کو یاد رکھنا ہم بھول ہی جاتے ہیں۔ یہ اونٹ ذبح کرنے سے پہلے کاش تو بڑے خان صاحب کو منالیتا تو شاید اللہ اس قربانی سے راضی ہونے کے ساتھ ساتھ تجھے اسماعیلؑ کی قربانی کا بھی ثواب اور اجر دیتا۔ تو میری بات سن کر جیسے خان کے ہاتھ سے سالن والا چمچ گر گیا۔ وہ میرے منہ کی طرف دیکھنے لگا۔ میں نے کہا ویسے اونٹ کا گوشت تھوڑا نمکین سا نہیں ہوتا۔ ساتھ بیٹھے حمید نے سالن والا ڈونگہ اپنی طرف کھینچتے ہوئےکہا نہیں بابا جی فی الحال آپ کی بات بہت نمکین تھی جو ابھی ابھی آپ فرما گئے ہو۔