بہت کامیاب ریڈ تھی مخبر نے جو اطلاع دی تھی اور جتنی رقم اندازاََ بتائی تھی بالکل اتنی مقدار اور حجم کا جواء کھیلا جارہا تھا۔ جمعہ کا دن تھا کچھ سفید پوش اور آڑھتی حضرات جواء کھیلنے میں مصروف تھے۔ سب انسپکٹر رمیض نے جواری پکڑنے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی رقم بھی قبضے میں لی تھی۔ رمیض بہت خوش تھا۔ تھانے پہنچ کر رمیض نے ہر اس جواری کو چھوڑ دیا جس نے بڑی رشوت آفر کی یا جس کے لیے شہر کی کسی بڑی سیاسی یا سماجی شخصیت کا فون آیا محض وہ ہی لوگ حوالات کے سپرد ہوئے جن کی کوئی سفارش نہ تھی یا جن کے ساتھ مک مکا نہ ہو سکا۔
فروٹ کے شاپر اور ضروریات زندگی کی دوسری چیزیں لے کر رمیض گھر پہنچا۔ رمیض کے پلنگ کے ساتھ الیکٹرک ہیٹر اپنی پوری آب وتاب سے چل رہا تھا سخت سردی میں نرم گرم کمرے کے پر لطف ماحول میں کمبل لپیٹ کر رمیض بیڈ سے نیچے پاؤں لٹکا کر بیٹھ گیا اور اس کی بیوی نے سوپ کا ایک بڑا مگ لاکر رمیض کے ہاتھ میں تھما دیا۔ رمیض کی جیب رشوت کے پیسوں اور رمیض کا کمرہ الیکٹرک ہیٹر سے خوب گرم تھا۔ بے خیالی میں سوپ کی چسکیاں بھرتے ہوئے ہیٹر کی گرمی سے اس کی دائیں ٹانگ ہیٹر کے قریب ہونے کی وجہ سے جب جلنے لگی تو اسے خیال آیا اوہ ہو میری ٹانگ تو اس چھوٹے سے ہیٹر کی گرمی برداشت نہیں کر پائی تو اس آگ کا کیا ہوگا جو جہنم میں میرا انتظار کررہی ہے۔ سخت سردی کے موسم میں رمیض کو پسینے آنے لگے اسے اپنی جیب میں رشوت کے پیسے جہنم کا ایندھن لگنے لگے رمیض کو لگ رہا تھا ہیٹر کی کوائل سے اٹھنے والی حدت اور سرخ رنگ کی شعائیں اس کی آنکھوں کے رستے جسم میں اتر کر اس کی ہڈیوں کو پگھلا رہی ہیں۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ جہنم کی دہکتی بھڑکتی ہوئی ہاویہ آگ میں سلگ کر اپنی آنکھوں کے رستے موم کی طرح قطرہ قطرہ ٹپک رہا ہے۔ کمرے کے گدگداتے ماحول میں رمیض کی بیوی نیند کی گہری وادیوں میں کھو چکی تھی مگر رمیض خوف خدا سے لرز کر بار بار ٹھنڈے پانی کے گلاس پی رہا تھا۔