میرے ایک دوست ماشاءاللہ کافی امیر آدمی ہیں اور مزے کی بات سیلف میڈ آدمی ہیں دولت کی فراوانی ہے عمر، تجربے، عہدے اور تعلیمی میدان میں مجھ سے بہت آگے ہیں جب سے میں ان کو جانتا ہوں ہمیشہ سچ بولتے ہیں پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے نماز باجماعت ہی پڑھی جائے ہاتھ کی انگلی میں ہمیشہ تسبیح پہن کےرکھتے ہیں۔ دمہ شوگر دل کے امراض بلڈ پریشر یہ بیماریاں اب ان کی ہمجولی ہیں۔ ہمیشہ صدقہ خیرات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بہت بھلے آدمی ہیں۔ انکی بیوی ہمیشہ محلے کی خواتین کو اکٹھی کرکے گھر میں قرآن خوانی کا اہتمام کرتی ہے۔ اہل محلہ اور حقداران کے کام آنا ان کے خون میں شامل لگتا ہے ہمیشہ خوش دلی سے لوگوں کے کام آتے ہیں۔ میں ان کی زندگی سے بہت متاثر تھا۔ ان کا کہنا ہے سونے کی انگوٹھیاں اب مجھے زیب نہیں دیتیں۔ ان کی اولاد بھی مہنگے سکولوں میں زیر تعلیم ہے۔ ان کا بڑا بیٹا مہنگےبرانڈ کے سگریٹ میں چرس پینا پسند کرتا ہے۔ ایک دو بار مہنگی شراب کی بوتل بھی اس کے بیڈکے میٹریس کے نیچے سے برآمد ہوئی۔ ایک دن ہم اکٹھے مسجد میں بیٹھے تھے۔ نماز سے فراغت کے بعد وہ قرآن پاک کا کچھ ورد ضرور کرتے ہیں۔ وہ بھی سرکاری محکمے کے افسر تھے میں بھی ایک سرکاری اہل کار ہوں تو میری کوشش ہوتی کہ ان سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھا جائے۔ انکے تجربات سے استفادہ کیا جائے۔ میں نے پوچھا سر ایک بات تو بتائیں میرے جیسے متوسط طبقے کے شخص کو امیر ہونے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ وہ قرآن پاک بند کرکےمیری طرف متوجہ ہو گئے مسکرا کے بولے بابا جی امیر ہونا چاہتے ہو؟ میں نے کہا نہیں سر ویسے پوچھا ہے۔ کہ ایک غریب سے سرکاری بندے کو امیر ہونے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ اب اس تنخواہ سے تو گزر بسر بھی بمشکل ہو رہی ہے۔ ماشاءاللہ آپ بھی تو سرکاری ملازم تھے آج شہر کےرئیس لوگوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ کچھ دیر آنکھیں بند کرکے سوچتے رہے مجھےلگا ان کی آنکھوں میں نمی بھی امنڈ آئی تھی۔ گہری اورایک لمبی سانس بھر کے کہنے لگے بابا جی۔ کچھ ڈھیٹ، خود غرض، لالچی، بے شرم، رشوت خور، مطلبی، مردہ ضمیر، چور، جھوٹا، مکار، خلوص سے عاری، اسلام اور اسلامی تعلیمات دور ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت کے دائرے سے باہر ہونا پڑتا ہے پھر جا کے ایک غریب متوسط خاندان سے تعلق رکھنے والا سرکاری افسر دولت مند ہو سکتا ہے۔ یہ سب بتاتے ان کی آواز اور سنتے سنتے میری آنکھیں بھر آئی تھیں۔