شیدا۔ ہیلو آنٹی ہاؤ آر یو؟
ماسی پھتے۔ پُتر شیدے سلام ناں دعا تجھے لگتا ہے واوا ای تعلیم کی کمی ہے اینے چِر (عرصے) بعد تو میری ہٹی پہ آیا ہے میں سوچ رہی تھی تو پہلے سے کافی سمجھدار ہوگیا ہوگا پَر پُتر تیرا تو پہلے سے بھی بیڑہ غرق ہو ا پڑا ہے اور تو، تو بڑوں کا ادب کرنا بھی بھول گیا ہے۔ پُتر پہلے بزرگوں کو ادب کے ساتھ سلام کہتے ہیں حال وال (احوال) پوچھتے ہیں پھر کوئی دوسری بات کرتے ہیں۔
شیدا۔ اوہ مائی گاڈ آنٹی میں نے آپ کو سب سے پہلے ہیلو بولا ہے آپ کو سمجھ نہیں آئی تو یہ میری مِس ٹیک نہیں ہے۔
ماسی پھتے۔ ہائے ہائے وے ہیلو مِس ٹِک کے کچھ لگتیا یہ تیرے والوں (بالوں) کو کیا ہو ا ہے وے ماں صدقے اب تو جلدی سے ٹنڈ کروا لے میرا شیر تاکہ تیرے سارے وال دوبارہ سے اگ جائیں لگتا ہے تجھے پاں (خارش) پڑ گئی ہے یا وال چار ہوگیا ہے وے کتے پھلبہری تو نئیں ہوگئی؟ اب ایسا کرییں (کرنا) صبح سرگی ویلے نہار منہ جہاں جہاں سے تیرے وال گِرے ہیں اپنا تھُک (تھوک) لگائییں۔ پتہ نیئں کیا کیا ظلم ہو رہے ہیں ہمارے ساتھ ان کھاد سپرے اور کیڑے مار زہروں نے ہماری خوراک تک کو زہریلی کر دیا ہے اور یہ برائلر جو ہماری خوراک میں شامل ہوگیا ہے اس نے تو ستیاناس ہی کرکے رکھ دیا ہے۔ میں نے سنا ہے اس نکھٹنے برائلر کی خوراک ساری کی ساری حرام چیزو ں کی بنتی ہے مصالحوں میں ملاوٹ اللہ کے نور (دودھ) میں بھی پتہ نئیں کی کی کھہہ سوا ہ شامل کر رہے ہیں یہ دودھی (گوالے)۔ یہ جو سارا دن میں اپنی ہٹی پہ گھی تیل بیچتی ہوں اس میں پتہ نئیں کس کس جنور (جانور) کی چربی ملاتے ہیں فیکٹریوں والے۔ انھیں کیا انھیں تو بس دولت کمانی ہے کوئی مرتا ہے تو مرے پُتر خوراکیں ہمارے وقتوں میں ہو ا کرتی تھیں دیسی گھی دیسی گڑھ خالص دودھ۔ میں خود تندور پہ اپنے ہاتھوں سے دیسی گی میں آٹا گوندھ کے مزے دار پراٹھے بنا یا کرتی تھی او ر ہم سارا ٹبر دیسی گھی کے بنے پراٹھے گنڈے (پیاز) گڑھ اور لسی کے ساتھ سُرک کے روٹی کھا لیا کرتے تھے۔ میرے وال آج بھی اسی طرح گھنے اور مضبوط ہیں یہ دیکھ (سر سے دوپٹہ ہٹا کے بال دکھاتی ہے) ذرا سفید ہو گئے ہیں میری عمر وی تو ویکھ ناں سٹھ سال کی ہونے والی ہوں مجھے آج بھی یاد ہے میرا تایا اللہ بخشے پنج کلو دیسی گھی کا حلوہ کھا جایا کرتا تھا دو دو چھنے دودھ پی جایا کرتا تھا ویہہ ویہہ ڈنگر (بیس بیس مویشی) اکیلا سنبھالتا تھا اور آج کل ڈیٹنگ(ڈائیٹ) مجھے تو نئی نسل پہ بس ترس ہی آتا ہے ان کی کمریں (کمر) دیکھ لو جیسے پیلا ڈھیمو ہوتا ہے دودھ اور دھی میں سے تو ان کو چھا ہن (بو) آتی ہے۔ صحت ان کی کھہہ تے سواہ بنے گی۔
شیدا۔ او ہ ڈیئر اولڈ آنٹی میرے بالوں کو کچھ نہیں ہوا اِٹ از مائی ہیئر اسٹائل ہنی سنگھ اسٹائل ہے انگلینڈ سے بنوا کے آیا ہوں ایک مہنگا جِل لگایا ہوا ہے میں نے۔ ہالی ووڈ بیوٹی سیلون سے پورے پانچ دن پہلے ٹائم لینا پڑتا ہے تب جا کے باری آتی ہے۔
ماسی پھتے۔ (شرارتی ہنسی ہنستے ہوئے منہ پہ انگلی رکھ کر) ہائے ہائے میں مراں وے شیدے یہ اگ لگنا تیرا اشٹائل ہے وے تونے یہ اس طرح کے وال پیسے دے کر کٹوائے ہیں اور مہنگا جِل لگایا ہوا ہے۔ ہم تو سروں (سرسوں) کے تیل کی مالش کیا کرتے تھے جب کبھی کہیں رشتے داروں کو ملنے سال چھماہیں (سال چھ ماہ بعد) جانا ہوتا تو ہماری امی لسی سے ہمارے بال دھویا کرتی تھی اور میرے نکے ویر (چھوٹے بھائی) گامے نائی سے بال کٹواتے ہوتے تھے اور گاما نائی ہمارے گھر آکر ایک لسی کا گلاس پی کے یا دودھ کا چھنہ پی کر ہی سارے بچوں کے وال کاٹ جایا کرتا تھا۔ میرے دادے کے، تایوں کے، میرے چاچا جی کے سب کے وال کاٹ جایا کرتا داڑھیوں کے خط کر جایا کرتا تھا اور
تو پنج دن انتظار کرتا رہا فیر تیری واری آئی وے تونے داڑھی کا بیڑہ غرق پیسے دے کر کروایا ہے پُتر شیدے تجھے ماسہ (زرا) شرم نہ آئی کہ گاؤں کے لوگ کیا کہیں گے یا تیرے ماں پیو(ماں باپ) کو کتنی شرمندگی ہوگی تیرا یہ بے ڈھنگا ہیر اشٹائل دیکھ کے۔ اپنی نہیں تو اپنے ماں پیو کی عزت کا ای خیال کرتا پُتر ان کے بگے چاہٹے (سفید بالوں) کا ای سوچتا وہ وچارے تو منہ لکاتے (چھپاتے) پھرتے ہوں گے تیرے اس کرتوت کو دیکھ کر
شیدا۔ غصے سے اوہ آنٹی یو آر پوور ولجرز پرانی سوچ کے لوگ ہو تم۔ اینڈ ناؤ آئی ایم ناٹ رشید آر شیدا ناؤ آئی ایم رِشی (او ر اب میں رشید یا شیدا نہیں ہوں اب میرا نام رِشی ہے)۔ انگلینڈ میں مجھے سب لوگ رِشی کہتے ہیں۔ یہ زندگی میری اپنی ہے مجھے حق حاصل ہے کہ جیسے چاہے رہوں جو مرضی کروں کسی دوسرے کو کیا تکلیف ہو سکتی ہے۔ اِٹ از مائی نیو لُک اور مجھے جو اچھا لگے گا وہ کروں گا آئی ڈونٹ کیئر۔
ماسی پھتے۔ رِشی مِشی کے کچھ لگتیا۔ غصہ نا ں کرییں (غصہ نہ کرنا) میرے دادا بہشتی کو بھیڑ بکریاں اونٹ بہت سارے مویشی جانور رکھنے کا بڑا شوق تھا تیہہ (تیس) کلو دودھ ہمارے گھر ایک وقت کا ہوتا تھا ہمارے گاؤں ایک میلہ لگتا ہوتا تھا میلے میں دور دور سے لوگ اپنے سوہنے سوہنے ڈنگر (مویشی) لایا کرتے تھے یہ جس طرح کے پھل بوٹے تونے اپنے سر اور داڑھی میں بنائے ہوئے ہیں اس طرح کے پھل بوٹے ان چھتروں گدھوں اونٹوں پہ بنوا کے لوگ لایا کرتے تھے۔ میرے دادے جی نے میرے چاچے (چاچا پرنے وقتو ں میں باپ کو بھی کہا جاتا تھا) کی ڈیوٹی لگائی ہوتی تھی کہ گامے نائی کے پاس اپنے اونٹ گدھے او ر چھترے کو لے جائے اور گاما نائی جو تو پیسے دے کر اور پنج دن انتظار کرکے چن چڑھا کے آیا ہے نہ مفت بنا کے دیا کرتا تھا ہاں میلے کے دنوں میں رش تو گامے کے پاس بھی بہت ہوتا تھا وہاں بھی اپنی واری کا انتظار کرنا پڑتا ہوتا تھا۔ کیونکہ گاؤں کے دوسرے لوگ بھی میلے کے لیے اپنے جانور تیار کرواتے ہوتے تھے پُتر یہ پھل کناریاں اور بے ڈھنگے ڈیزائن کھوتوں گھوڑوں پہ ای سوہنے لگتے تھے تیرا چن ورگا منہ کسی کھرک مارے جانور جیسا لگ رہا ہے پُتر۔
شیدا۔ اِٹ از ٹو مچ۔ مجھے آپ جیسے جاہل لوگوں کے منہ ہی نہیں لگنا چاہیے جن کو شعور ہی نہیں ہے زندگی میں انسان کو یونیک انداز اپنانا چاہیے زندگی ایک مکمل انجوائے منٹ کا نام ہے پرانی روایات پیاز لہسی اور دودھ کے ساتھ روٹی کھانا سرسوں کے تیل کی مالش کرنا لہسی کے ساتھ نہانا گاؤں میں گندے قینچی اوستروں سے بال اور خط کروانا سب جہالت ہے۔ ہمیں یورپ کے انداز اپنانے چاہییں وہاں کتنی صفائی ہے شور نہیں ہے کسی کو کسی دوسرے سے کوئی غرض نہیں کہ کوئی کیا کرتا ہے کیا کھاتا ہے کہاں جاتا ہے کوئی کسی دوسرے کی زندگی میں بلا وجہ دخل اندازی نہیں کرتا یہ سب تم دیہاتی لوگوں کے پرابلمز ہیں۔
ماسی پھتے۔ ہاں پُتر تو صحیح کہتا ہے تیرے ٹٹ پینے یورپ میں صفائی شائد ہو مگر پاکی (ُپاکیزگی) تو نہیں ناں اور یہ ہم دیہاتی لوگو ں کے پراگلم (پرابلمز) ہیں۔ ہم جاہل لوگ ہیں پُتر تو ٹھیک کہتا ہے تیری امی نے قرآن میرے پاس پڑھا تھا اور پہلے پنج (پانچ) کلمے میں نے ہی تجھے سکھائے تھے پُتر تو بالکل سچا ہے ہم گاؤں والے ایک دوسرے کی زندگی میں بلاوجہ ٹانگ اڑاتے ہیں پُتر جب عید ہوتی ہے تو ہم گاؤں والے اس وقت تک ناشتہ نہیں کرتے جب تک دوسرے آس پاس کے گھروں میں اپنی پکائی ہوئی کوئی چیز نہ بھیج دیں۔ ہر خوشی اور ہر غم ہم گاؤں والوں کا سانجھا ہوتا ہے پُتر۔ گاؤں میں اگر کسی کا کوئی فوت ہوجائے تو پورا گاؤں غم میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔ گاؤں میں کسی کی بیٹی کی شادی ہو تو پورے گاؤں کو وخت پڑا ہوتا ہے جیسے ہر گھر کی بیٹی کی شادی ہو سرسوں کے تیل اور لسی سے نہانا غلط تھا پُتر مجھے پتہ ہے مگر آج کے دور میں سور کی چربی والے خوشبودار صابنوں سے گندے مندے شیمپوؤں سے نہانا ٹھیک ہے پُتر پیاز دودھ لسی کے ساتھ روٹی کھانا غلط تھا مگر مردہ برائلروں مردہ جانوروں کھوتوں (گدھوں) کے گوشت کے بنے پیزے برگر شوارمے کھانا درست ہے پُتر دیسی گھی میں آٹا گوندھ کے پراٹھا بنا نا غلط تھا پُتر اور مردہ جانوروں کی چربی سے بنے آئل کھانا درست ہے پُتر اوٹ پٹانگ کریمیں لگانا داڑھی منڈوانے کے پعد حرام سپرے کرنا جائز ہے پتر مگر گاؤں میں گامے نائی کے جراثیم والے قینچی استرے استعمال کرنا غلط ہے پُتر۔ حالانکہ وہ پیچارہ بھی پھٹکڑی سے انھیں صاف کیا کرتا تھا۔ اپنے ہاتھ سے اگائی فصلیں اناج کھانا اپنے ہاتھ سے سبزیوں ٹماٹروں پیاز اور لہسن کی چٹنی بنا نا تازہ پھلوں کے مربے بنانا غلط تھا پُتر اور آج گلی سڑی سبزیوں پھلوں اور ٹماٹروں کے جام کیچپ جوس پینا ٹھیک ہے پُتر۔ تو بالکل ٹھیک کہتا ہے شیدے پُتر پچھلے دن نیہفاں (حنیفاں) گوبھی لے کے آئی بازار سے اور گوبھی کے پھول سے جو نکلا میں بتا بھی نہیں سکتی شہروں سے نکلنے والے گندے نالوں کے پانی سے فصلوں اور سبزیوں کو سیراب کیا جاتا ہے تو پھر ہماری صحتیں بھی تو ایسی ہی ہونی ہیں نا۔
شیدا۔ اچھا ماسی میں نے غلطی کر لی تیری دکان پہ آنے کی دوبارہ نہیں آؤں گا بس ایک پیکٹ گولڈلیف سگریٹ اور تین ماؤتھ فریش دے دو تم لوگ کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔
ماسی پھتے۔ سگریٹ اور ماؤتھ فریش پکڑاتے ہوئے ہاں پُتر ہم واقعی ترقی نہیں کر سکتے کیوں کہ جسے تیرے جیسے ولائتی بابو ترقی کہتے ہیں وہ گھٹیا سوچ اور بے حیائی کے سو ا کچھ بھی نہیں جا میرا پُتر ماں صدقے جیوند ا رہ سنیں ساتھیاں۔ تے مُڑ کے ایویں دے وال نہ کٹو ائیں جیویں پیھڈ (بھیڑ) دا لیلا ہوندا اے (دوبارہ ایسے بال مت کٹوانا جیسے بھیڑ کا لیلا ہوتا ہے)