(ڈی ایس پی ملک ناصر صاحب پولیس ٹریننگ کالج لاہور کے نام)
حوالدار تابعدار کے گھر اکثر گیس بجلی کی وجہ سے لڑائی رہتی، رات کو تا بعدار ناکوں اور گشت ڈیوٹیوں سے تھکا ہارا آتا ہر رات سونے سے پہلے سوچتا کہ صبح بس آرام سے ہی اٹھوں گا لیکن صبح صبح جب حوالدار تابعدار کی بیوی اُسے یہ کہہ کر جگاتی کہ اٹھیں بازار سے دہی چنے حلیم اور نان لے آئیں گیس نہیں آرہی بچوں نے سکول جانا ہے انھیں دیر ہو رہی ہے تو حوالدار تابعدار کو اتنا غصہ آ تا کہ سوئی گیس محکمہ کے ذمہ داران کو اگر وہ سامنے ہوتے تو وہ کچا چبا جاتا، یا اپنے کسی سینئیر آفیسر سے کہہ کہ کوئی ایسا کیس کرواتا کہ انھیں ایک لمبے عرصے تک جیل کی ہوا کھانی پڑتی، ایسا ہی حال کچھ بجلی کا تھا اکثر حوالدار تابعدا ر کو میلی کچیلی اَن دھلی وردی پہن کے ڈیوٹی جانا پڑتا جب تابعدار اپنی زوجہ محترمہ سے وردی نا دھونے کی وجہ پوچھتا تو وہ موصوفہ آرام سے کہہ دیتیں بجلی نہیں تھی میں آپ کا یونیفار م دھونے کے لیے پانی کہا ں سے لاتی اور اگر بالٹی پانی کی میں ہمسائی نذیراں کے گھر سے لے بھی آتی تو پھر اِستری کیسے کرتی، شاید حوالدار تابعدار کی بیوی بھی کچھ نکھٹو تھی لیکن بجلی اور گیس کے محکموں نے اسے کام نا کرنے کا ایک معقول اور جائز بہانہ دے رکھا تھا، حوالدار تابعدار نے سوچا کیوں ناں گیس بجلی پانی اور اس طرح کے باقی بہت سارے محکموں کے خلاف آواز اٹھائی جائے لہذا ڈیوٹی سے واپس آکے تا بعدار نے فیصلہ کیا کہ آج رات سونے کی بجائے ان محکموں کے خلاف کچھ لکھا جائے جن کی وجہ سے آئے روز میری نیند خراب ہوتی ہے اور مجھے میلی وردی کی وجہ سے افسروں کی ڈا نٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، رات دیر تک تابعدار نے نا جانے کیا کیا لکھ ڈالا ایک چھ صفحوں کی لمبی چوڑ ی احتجاجی تحریر لکھ ڈالی، اپنا احتجاج قلمبند کرنے کے لیے کاغذ تابعدار اپنے آفس سے ہی لے آیا تھا، رشوت خوری، سرکاری خزانوں میں لوٹ گھسوٹ، اداروں کی بے ضابطگیاں، اہل ایوان پہ حکومت کی نوازشیں، اسمبلی ممبران کی تنخواہوں میں بے جا اضافے، جو جو تا بعدار کی سمجھ میں آ یا کہ ملک میں غلط ہو رہا ہے اس نے اپنے انداز سے سرکاری کاغذ پہ قلمبند کیا اور سب سے پہلے اپنی زوجہ محترمہ کو پڑھ کے سنا یا، جس نے تابعدار کی پوری رات کی محنت پہ فقط اتنا ارشاد فرمایا، (آئے ہائے ساری رات ایہہ لکھدے رہے جے؟)
اگلے دن تابعدار اپنی تحریر لے کے اپنے ایک قابل ڈی، ایس، پی، صاحب کے دفتر جا پہنچا او ر بڑے فخر سے اپنی تحریر ڈی، ایس، پی صا حب کو دکھائی جنھوں نے بڑے دھیان اور توجہ سے تابعدار کی ساری تحریر کو پڑھا، عبارت کو پڑھتے ہوئے ڈی، ایس، پی صا حب کے چہرے پہ کبھی ہلکی سی مسکراہٹ آجاتی کبھی وہ اپنے سر کو ذراسی جنبش دیتے، ساری تحریر پڑھنے کے بعد ڈی، ایس، پی، صاحب نے فرمایا ویلڈن تابعدار آپ نے کما ل کر دیا ہے، مجھے آپ کی تحریر پڑھ کے بہت خوشی ہوئی اور مجھے فخر ہے کہ آپ جیسے لوگ بھی ہمارے پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ہیں جو رشوت، چوری، سرکاری مال میں خر د بر د کو جرم اور لعنت سمجھتے ہیں، میری طرف سے آپ کو شاباش، لیکن تابعدار مجھے لگتا ہے آپ نے جس کا غذ پہ یہ ساری تحریر لکھی ہے یہ سرکاری ہے تو تابعدار میرے بھائی سرکاری کاغذ کا اپنے کسی ذاتی کام کے لیے استعمال بھی غلط ہے، میں بھی اکثر کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا ہوں، مگر میں دس بیس کاغذ اپنے پیسوں سے منگوا کے رکھ لیتا ہوں جو کاغذ میرے استعمال سے بچ جاتے ہیں میری کوشش ہوتی ہے کہ ان کو کسی سرکاری کام میں استعمال کیا جا سکے، اگر آپ کو لکھنے کا شوق ہے تو آپ سرکاری کا غذ کا کبھی استعمال نہ کرنا کاغذ اپنے ذاتی پیسوں سے خرید کے لکھنا جو بھی لکھنا او ر دیکھنا پھر اللہ آپ کی تحریر وں میں کیسے برکت ڈالتا ہے اور آپ کے اندر چھپی صلاحیتوں کو اللہ کیسے نکھار تا ہے، بہر حال شاباش keep it up لکھتے رہو اچھا لکھنا بھی ایک طرح کا جہاد ہے تابعدار۔
تابعدار اب شرمندہ تھا کہ وہ سرکاری کاغذ اپنے استعمال میں کیو ں لایا، ساتھ ہی خوش بھی تھا کہ ہمارے ملک پاکستان میں اس قدر محب وطن، اداروں سے، سرکاری اشیا سے محبت کرنے والے لو گ ابھی موجود ہیں، یقینا پاکستان کے ہر ادارے میں ایسے فرشتہ صفت اور نیک انسان موجود ہیں ورنہ جس طرح چند عناصر نے پاکستان میں لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے جس طرح چوری، کرپشن کرنے او ر غریب عوام کے حقوق سلب کرنے کے بعد بھی کچھ لوگ خود کو معتبر اور معاشرے کا با وقار حصہ سمجھتے ہیں ہمار ا عظیم ملک ان کے گھناؤنے مقاصد کی بھینٹ چڑ ھ جاتا ایسے غلیظ عزائم کے مالک لوگوں کے لیے ایک شعر عرض خدمت ہے جو ہر طرح کی غیر اخلاقی سرگرمیوں کا حصہ ہونے کے باوجود ملک میں لوٹ مار کے سرپرست ہونے کے باوجود سرکاری اداروں کے لیے شرمندگی کا باعث ہونے کے باوجود خود کو بڑا معتبر اور قابل عزت شہری سمجھتے ہیں
تمھاری معتبر رہنے کی حسرت خاک ہو جا ئے
اگر میں لب کشائی کا حتمی فیصلہ کرلوں
اللہ ہمارے ملک پاکستان کو ہر بری سوچ بری نظر اور کرپٹ لوگوں کے مکروہ عزائم سے محفوظ رکھے وطن عزیز سے محبت کرنے والوں کی عمر یں دراز کرے ایسے آفیسر جو ایک سرکاری کاغذ کا بے جا استعمال بھی جرم تصور کرتے ہیں ا ن کی عزت توقیر میں حد درجہ اضافے فرمائے آمین، پاکستان زندہ باد، کرپشن مردہ باد۔