بنسی لال شہر کی گلیوں میں رکشہ چلایا کرتاتھا۔ بنسی لال لمبا تڑنگا، کسرتی بدن اور نوکیلے نقوش کا مالک نوجوان تھا۔ رنگ تو اس کاسانولہ تھا مگردیکھنے والے کی نظر شایدبنسی لال کے رنگ پہ کم اور مضبوط بدن پہ زیادہ پڑتی ہوگی یہی وجہ تھی کہ بنسی لال ہندوئوں کی بستی کا ہر دلعزیر سپوت بنا ہوا تھا۔ بنسی لال کا چھریرا بدن سانولے رنگ پہ غالب تھا۔ بنسی لال کی بیوی مُکھی شریف ہونے کے ساتھ ساتھ سگھڑ اور گھریلولڑکی تھی۔ بستی کے سب لوگ جہاں بنسی لال کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے، وہیں مُکھی سے بھی بلا کی عقیدت رکھتے تھے۔ چار چھوٹے چھوٹے بچوں والےمکھی اور بنسی لال اہل بستی کی آنکھ کا تارا تھے۔ بنسی لال میں حس مزاح بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ بچوں کے ساتھ بچہ، بڑوں کے ساتھ بڑا اور بزرگ عورتوں کے ساتھ بیٹوں جیسا بنسی لال اپنے کام سے کام رکھتا، مگر دوسروں کی تکالیف پریشانیوں میں بڑھ چڑھ کر مدد کرتا۔ بنسی لال کے رکشے میں زیادہ سے زیادہ آٹھ لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی مگر صبح سکول کے وقت بستی کے تمام بچے بنسی لال کے رکشے کے گرد جمع ہوجایا کرتے، ہر بچہ بنسی لال کے رکشے میں سکول جانا پسند کرتا۔ بنسی لال بھی شاید بستی کے بچوں سے بدرجہ اتم پیار کرتا تھا۔ بنسی لال خود اس قدر سکٹرکر رکشے پربیٹھتا کہ وہ رکشے کی سیٹوں کے علاوہ رکشے میں جڑی موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ اور ٹینکی پر بھی بچوں کو بٹھالیا کرتا۔ بچوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتا اور ہنستے ہنساتے سکول تک پہنچا دیتا۔ آج بھی بنسی لال سکول کے باہر کھڑا بچوں کی چھٹی کا انتظار کر رہا تھا جب دیویا کی نظر بنسی لال پہ پڑی۔ گول مٹول چہرے اور دودھیا رنگت والی پینتیس چھتیس سال کی دیویا اسی سکول میں ٹیچر تھی جہاں بنسی لال روزانہ بچوں کو چھوڑنے اور چھٹی کے وقت لینے آیا کرتا تھا۔ دیویا کے تین بچے تھے۔ دیویا کا خاوند موہن پچھلے چار سال سے قتل کے مقدمے میں جیل کی سزا کاٹ رہا تھا۔ ان چار سالوں میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ دیویا کو لگا کہ کوئی مرد اس کے خاوند کی کمی کو پورا کرسکتا ہے۔ لہذا آنافانا دیویا کونوکیلی مونچھوں والے کڑیل جوان بنسی لال سے عشق ہوگیا۔ دیویا کی شخصیت میں اچانک بدلاو آگیا۔ اب دیویا صبح سکول جلدی آجایا کرتی اور چھٹی کے وقت بھی اس وقت تک سکول کی کھڑکی سے بنسی لال کو دیکھتی رہتی جب تک دیویا کی کیفیت سے لاعلم بنسی لال تمام بچوں کو رکشے میں بٹھا کر روانہ نہ ہوجایا کرتا۔ وقت گزرتا رہا اب دیویا کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ بنسی لال سے بات کیسے کرے۔ کیسے اپنی حالت اور یکطرفہ اٹھنے والے عشق کے آتش فشاں کے گرم گرم لاوے جیسے جذبات سے بنسی لال کو آگاہ کرے۔ بنسی لال اپنے معمول کے مطابق روزانہ صبح بچوں کو سکول چھوڑنے آتا اور چھٹی کے وقت رکشہ بچوں سے لاد کر واپس چلا جاتا۔ ایک دو بار دیویا رنگ برنگے زرق برق لباس میں ملبوس بنسی لال کے پاس سے گزری۔ مگر بچوں سے اٹھکیلیاں کرتے بنسی لال نے ایک بار بھی نظر اٹھا کردیویا کی طرف نہ دیکھا۔ دیکھتا بھی کیسے، بنسی لال تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ موٹر سائیکل رکشے کی چین کے گریس، موبل آئل، پٹرول اور گرد مٹی سے لتھڑے بنسی لال سے کوئی پڑھی لکھی انگریزی بولنے والی میڈم بھی عشق فرما سکتی ہے۔ آج بھی بنسی لال چھٹی کے وقت بچوں کے سکول بیگ رکشے کے ڈنڈوں کھونٹیوں سے لٹکا رہا تھا جب ایک بچے نے آکر بنسی لال سے کہا ٌٌّوہ میڈم آپ کو بلا رہی ہیں۔ ٌٌ بنسی لال بچوں کو ادھر ادھر جانے سے منع کرکے ہاتھ میں پکڑا بیگ موٹر سائیکل کے ہینڈل سے لٹکا کر دیویا کی بات سننے چل پڑ ا۔ میڈم کے پاس جاکر بنسی لال نے رک کر ادب سے کہا رام رام میڈم جی اور بچے کی طرف اشارہ کرکے کہا میڈم جی وہ بچہ کہہ رہا تھا آپ نے مجھے بلایا۔ دیویا۔ ہلکی سی سمائل دیتے ہوئے۔ جی، وہ پوچھناتھا۔ آج آپ مجھے میرے گھر تک چھوڑ سکتے ہیں۔ میرا رکشے والا ابھی تک نہیں آیا۔ حالانکہ دیویا کا کوئی رکشے والا تھا ہی نہیں وہ تو پیدل سکول آتی اور جاتی تھی۔ بنسی لال۔ جی میڈم میرے رکشے میں جگہ تنگ ہے بچے زیادہ ہیں میں کسی دوسرے رکشے والے کو کہہ دیتا ہوں۔ دیویا۔ نہیں نہیں اس کی ضرورت نہیں یہ ساتھ ہی دوسری گلی میں میر اگھر ہے۔ آپ تکلیف نہ کریں۔ میں پیدل چلی جاتی ہوں۔ اب بنسی لال کے مزاج کے تو مکمل خلاف تھا کہ کوئی کام کہے اور بنسی لال کر نہ سکے۔ بنسی لال نے بچوں کو سکول کے چپڑاسی کے حوالے کیا اور خود دیویا کو اپنے رکشے میں بٹھا کر گھر چھوڑنے چلا گیا۔ دورازے میں پہنچ کر دیویا نے اس کا بہت شکریہ ادا کیا اوراسے رکنے کا کہہ کر اخود اندر چلی گئی۔ چند سیکنڈ بعد دیویا ہاتھ میں ٹھنڈے پانی کی بوتل لیے باہر آئی فرضی رکشے والے کو برا بھلا کہہ کر بنسی لال سے کہنے لگی۔ میرا رکشے والا ہمیشہ ہی ایسے کرتا ہے ہر روز لیٹ آنا اور بن بتائے چھٹیاں کر نا اس کا معمول ہے۔ میں بڑی تنگ ہوں اس سے۔ یہ ساتھ ہی تو سکول ہے کیوں ناں آپ بچوں کو سکول چھوڑ کر مجھے بھی لے جایا کریں۔ اور اسی طرح پہلے مجھے چھوڑدیاکریں اور بعد میں بچوں کو لے جایا کریں۔ میں بھی کوشش کیا کروں گی کہ چھٹی کے وقت جلدی سکول سے باہر آجایا کروں تاکہ آپ کا وقت بھی ضائع نہ ہو۔ بنسی لال نے مشروط سی حامی بھر لی پانی پی کر روانہ ہونے لگا تو دیویا نے سو کا نوٹ بنسی لال کو دینا چاہا مگر بنسی لا ل نے ہنس کر کہا اب پورے مہینے کےپیسے اکٹھے ہی لے لوں گا اور دونوں ہنسنے لگے۔ اب بنسی لال کا معمول بن گیا صبح جلدی سکول جاتا بچوں کو سکول اتار کر دیویا کے گھر کے باہر جاکھڑا ہوتا۔ دیویا ہمیشہ اسے کبھی چائے اور کبھی ناشتہ کرواتی۔ دن بدن بڑھتی دیویا کی عنایات نے تو جیسے بنسی لال کو خرید ہی لیا۔ اب تو بنسی لال کبھی کبھی لیٹ ہوجانے والے بچوں کو بھی چھوڑ جایا کرتااسے تو بس میڈم دیویا کو لینے اور سکول چھوڑنے کی جلدی ہوتی۔ آج صبح جب بنسی لال دیویا کو لینے اس کے گھر گیا تو اس نے بنسی لال کے لیے لسی کے جگ میں مکھن ڈال کر دیسی گھی کے پراٹھوں کے ساتھ ناشتہ دیا اور خود بھی بنسی لال کے پاس بیٹھ گئی۔ جب بنسی لال پراٹھے کھا رہا تھا تو دیویا نے کہا بنسی مجھے اکثر بازار کبھی ڈاکٹر اور سبزی وغیرہ لینے باہر جانا پڑتا ہے تو کیوں نہ میں تمھیں بلا لیا کروں تم مجھے بازار شاپنگ کرنے لے جایا کرو۔ بنسی لال نے کہا وہ تو ٹھیک ہے میڈم جی لیکن آپ مجھے بلایا کیسے کریں گی۔ میرے پاس تو موبائل ہی نہیں ہے۔ دیویا نے ہنسنے ہوئے کہا بنسی جی وہ میرا مسئلہ ہے۔ تم بس یہ بتاومیرے بلانے پہ آتو جایا کروگے نا؟ بنسی لال نے سینہ ٹھونک کر کہاہاں ہاں آجایا کروں گا اس میں کیا دشواری ہو سکتی ہے بھلا۔ دیویا نے گلاس میں لسی ڈالتے ہوئے کہا ْْاوکے ٌٌاگلی صبح جب بنسی لال دیویا کو لینے اس کے گھر گیا تو دیویا نے بنسی لال کو نوکیا 2300موبائل ایک یوفون کی سم دی اور کہا میں اس پہ تمھیں فون کر لیا کروں گی اور جب فون کروں تو تم آجایا کرنا۔ بنسی لال نے شکریہ کے ساتھ موبائل رکھ لیا۔ اور دونوں رکشے میں بیٹھ کر سکول چلے گئے۔ ابھی دیویا رکشے سے اتر کر سکول داخل ہوئی تھی کہ بنسی لال کے موبائل کی گھنٹی بجی بنسی لال نے فون کا ہر ابٹن دبایا اور فون کان کے ساتھ لگا کر کہا جی۔ تو دوسری طرف سے ہنستی ہوئی دیویا بولی میں بول رہی ہوں تمھاری میڈم دیویا۔ میں نے کہا چیک تو کروں ہمارے بنسی لال کو فون سننا بھی آتا ہے کہ نہیں۔ تو دونوں ہنسنے لگے۔ بنسی لال کے دل میں دیویا کے لیے احترام اور خلوص تھا۔ مگر دیویا تو اپنے دل کے ہاتھوں مجبورتھی وہ تو ہر پل بنسی لال کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہتی تھی۔ اس کےچھوٹے چھوٹے چار بچے تھے۔ گھر کا کام نوکرانی کرتی تھی۔ ساس سسر کوگزرے کئی سال ہوچکے تھے۔ دیویاکےلیے میدان بالکل خالی تھا۔ بس دوسری جانب سے بنسی لال کے بھولپن اور سادگی کا شکارتھی۔ اب وقت بے وقت دیویا بنسی لال کو فون کرتی۔ بنسی لال کا دھیان بھی بستی کے بچوں سے ہٹنے لگا۔ چھٹی والے دن دیویا بنسی لال کو شاپنگ کے لیے جانے کے بہانےبلالیتی اور پورا پورا دن دونوں شہر کے پارکوں شاپنگ مالز اور فاسٹ فوڈ کے پوائنٹس پر گزاردیتے۔ بنسی لال کے کپڑے جوتے رہن سہن بھی تبدیل ہونے لگا۔ دیویااپنے لیے کچھ خریدتی یا نہ خریدتی بنسی لال کے لیے شاپنگ ضرور کرتی۔ اب بنسی لال بھی مکمل طور پر دیویاسے بے تکلف ہونے لگا تھا۔ وہ بھی کبھی کبھار دیویاکو مس کال کرنے لگا۔ ادھر بنسی لال کی مس کال جاتی ادھر دیویاکا فون آجاتا اور پھر لمبی لمبی باتیں شروع ہوجاتیں۔ کہتے ہیں نہ کہٌٌ آگ کے پاس پاس رکھا ہو تو ابلے بے شک نہ گرم ضرور ہوجاتاہے ٌٌدیویا کی آنکھوں میں حرص کے دہکتے انگاروں نے بنسی لال کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا۔ بنسی لال رات دیر تک گھر سے باہر رہنے لگا۔ بات بات پہ مکھی سے لڑائی جھگڑا رہنے لگا۔ مکھی کے اندر کی عورت نے بنسی لال کے حالات کو سمجھنا شروع کردیا۔ جب کبھی بنسی لال گھر ہوتا اور دیویا کا فون آتا تو بنسی لال اٹھ کر گھر سے باہر نکل جاتا کتنی بار ایسا ہوا کہ سامنے کھانا رکھا ہوتا اور دیویا کا فون آجاتا تو بنسی لال روٹی چھوڑکر باہر نکل جاتا اور کئی کئی گھنٹے واپس نہ آتا طرح طرح کے وہم مکھی کو پریشان رکھنے لگے۔ ہر رات بنسی لال کے مضبوط بازئوں میں جھولنے والی مکھی اب بنسی لال کے بدن کے لمس کوترستے ہوئے سو جاتی۔ آ ج بھی جب دوپہر کے وقت دیویا کا فون آیا تو بنسی لال سامنے پڑی روٹیوں کی چنگیر ہٹا کر باہر نکل گیا۔ تقریباََ آدھے گھنٹے بعد واپس آیا تو مکھی غصے سے لال پیلی ہوئی بیٹھی تھی۔ بنسی لال کو دیکھتے ہی چلاکر بولی یہ کس ماں کا فون سننے باہر چلے جاتے ہوتمھیں گھر کی بچوں کی میری یہاں تک کہ کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہا آخر تم کرتے کیا ہو۔ مکھی کے منہ سے ماں کا لفظ سنتے ہی بنسی لال نے زور دارتھپڑ مکھی کے منہ پر مارا اور انتہائی غلیظ گالی دے کر بولا ہاں یہ میڈم کا فون تھا بول کیا کرلے گی۔ اپنی اوقات میں رہے گی تو اچھی رہے گی ورنہ دھکے مار مار کے گھر سے نکال دوں گا۔ مکھی نے میڈم کانام سن کر کہا وہ تیری میڈم ہے کہ رکھیل ہے۔ تیرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں تجھے شرم آنی چاہیے۔ اس کا مطلب جب تو راتوں کو گھر نہیں آتا تو اسی چڑیل کے پاس ہوتا ہے؟ بنسی لال نے کہا ْْہاں ہوتا ہوں کیا کرلے گی۔ مکھی نے کہا دیکھ بنسی اگر میں نے کچھ کیا تو پچھتائے گا۔ بنسی نے ہنستے ہوئے کہا۔ ارے جاجا پچھتائے۔ جا اکھاڑلے جو اکھاڑ سکتی ہے۔ میں تو اسی طرح میڈم سے ملوں گا اس کے فون سنوں گا رات کو بلائے گی تو رات کو بھی جائوں گا۔ تو نے جو کرنا ہے کر لے۔ یہ سب بول کر بنسی تو باہر نکل گیا مگر مکھی کے کانوں میں دیر تک بنسی کے الفاط گونجتے رہے۔ مکھی بھی کوئی فیصلہ کرچکی تھی۔ اور وہ فیصلہ تھا بنسی لال سے بے عزتی کا بدلہ لینا۔ ادھر موہن کی قید کی سزا ختم ہونے کو تھی جس کا دیویا کو یاد بھی نہ تھا۔ وہ تو دن رات بنسی لا ل کے چوڑے سینے پہ کھیلنے میں مصروف تھی۔ آ ج دیویا نے بنسی لال کے لیے دودھ میں بادام، پستے، اخروٹ، کاجو، گوندقطیرہ ڈال کر گندم کا دلیہ بنایا۔ دیویا کے بچے سکول جاچکے تھے۔ کام والی ناشتہ وغیرہ بناکر فارغ ہوکر جاچکی تھی۔ دیویا اپنے ہاتھوں سے بنسی لال کو دلیہ کھلارہی تھی۔ دیویا نے بنسی لال کے منہ میں دلیے کا چمچ ڈالتے ہوئے کہا بنسی جی آج سکول جانے کا من نہیں۔ کیوں نہ چھٹی کرلیں۔ بنسی نے دیویا کا ہاتھ پکڑ کا کہا جی کر لیتے ہیں۔ دیویا تو جیسے پہلے ہی کسی اشارے کی منتظر تھی۔ باقی کا دلیہ پھر صوفے اور بیٖڈ پہ ہی گرا۔ دیویا کھلے اور گیلے بال سکھاتے ہوئے ملک شیک مگ میں ڈال رہی تھی جب بنسی لال باتھ روم سے نہاکر نکلااور سیدھا کچن میں دیویا کے پیچھے جا کردیویا کی کمر پہ دونوں ہاتھ رکھ کراس کے بالوں کو دانتوں سے نوچنے لگا۔ دیویا نے کہا اب کیا ارادہ ہے میرے بنسی کا۔ بنسی نے دیویا کےکان کی لو پہ دندی کاٹتے ہوئے کہا، چل دیویا میڈم اگنی کے پھیرے بھی لے ہی لیں۔ دیویانے پلٹ کر بنسی لال کے گال پہ بوسہ دیا اورملک شیک کا مگ بنسی کے ہونٹوں سے لگاتے ہوئے کہا کاہے کی جلدی ہے مہاراج۔ پھیرے بھی لے لیں گے۔ پہلے مکھی سے تو جان چھڑوائو۔ اس سے پہلے کہ بنسی کچھ بولتا گیٹ پر بیل ہوئی۔ دیویا نے حیران ہوکر کہا اس وقت کون ہوسکتا ہے۔ کام والی تو ابھی گئی ہے۔ دودھ والابھی شام پانچ بجے آتاہے۔ پھر یہ۔۔ ابھی بات ادھوری ہی تھی کہ دوبارہ بیل ہوئی۔ دیویا نے بنسی سے کہا کوئی گڑبڑہے۔ تم الماری کے ساتھ لگ کر چھپ جائومیں دیکھتی ہوں جب تک میں نہ بلائوں بولنا بھی نہیں اور باہر بھی مت آنا۔ موہن چار سال بعد اچانک رہا ہوکر گھر آگیا۔ موہن کی چھ ماہ قید باقی تھی جو جیل کے دورے پر آئےملک کے صدر نے معاف کردی تھی۔ دیویاکے کھلے گیلے بال بیڈ پہ گرا دلیا ملک شیک کا آدھا مگ سہمی سہمی دیویاموہن کے شک میں مبتلاہونے کے لیے کافی تھے۔ موہن نے دیویا سے حال احوال پوچھنے کی بجائے عجیب سوال کر دیا۔ کون آیا تھا یہاں۔ موہن کا شک یقین میں اس وقت بدلاجب اس نے بیڈ کی سلوٹوں والی چادر پر مردانہ بنیان پڑی دیکھی۔ موہن نے دیویاکو بالوں سے پکڑ لیا اور کھینچتا ہوا کبھی ایک کمرے میں لے جاتا تو کبھی دوسرے کمرے میں اور ایک ہی سوال کر تا بتا کہاں ہے تیرا یار کون تھا۔ کہاں چھپایاہے۔ تیش میں آئے موہن نے کچن سے چھری بھی اٹھا لی اور دیویاکی گردن پہ رکھ دی۔ بنسی لال الماری کے پیچھے چھپا سب سن رہا تھا جب اس نے موہن کو یہ کہتے سنا کہ اس چھری سے تیرا گلا کاٹوں گا اگر نہیں بتائے گی تو یہ کہہ کر موہن نے چھری کو دیویاکی گردن پہ زور سے رگڑنا شروع کر دیا۔ جب بنسی نے دیویا کی فلک شگاف دھاڑیں سنی تو اس نے وہاں سے بھاگ جانے میں ہی غنیمت جانی اور نظر چرا کر بھاگنے کے لیے نکلا تو موہن نے اسے دیکھ لیا جب اس کا شک یقین میں بدل گیا تو اس نے تیش میں آکر ہاتھ میں پکڑی چھری کے پے درپے وار کرکے دیویاکے پیٹ میں یکے بعد دیگرے چار چھید کر دیے۔ بنسی کوبھی پکڑنے کے لیے بھاگا تو سہی مگر وہ دوڑکر گلی کی نکڑ مڑ چکا تھا۔ سہما ہوا پسینے سے شرابور بنسی جب اپنے گھر کے دروازے میں پہنچا تو پانڈورام سبزی والااور بنسی کی بیوی مکھی باچھیں کھینچ کھینچ کر ہنستے بڑے مطمعن اور اورپسینے سے سےبھیگے ےہوئے گارے مٹی کی کی دیواروں والے کچےکوٹھے کے ٹوٹے پھوٹے لکڑی کے دروازے سے باہر نکل رہے تھے کیوں کہ انھیں یقین تھاکہ بنسی دیویا کے ساتھ منہ کالاکر رہا ہوگا ویسے بھی یہ بنسی لال کے گھر آنے کا وقت نہیں تھا۔