بہت کٹھن ھے بھلانا مگر بھلا دینا
کتاب وصل کے سارے ورق جلا دینا
وہ جانتا ہی نہیں ھے بھلا دیا ھے اسے
اگر وہ لوٹنا چاھے تو پھر بتا دینا
مجھے ھے ڈر وہ مسافر پلٹ نہ آئے کہیں
یہ خواب دیکھوں تو آکر مجھے جگا دینا
یہ آنسوؤں کی کہانی تھی لفظ مٹتے گئے
وہ پڑھ رہا ھے تو دھیرے سے مسکرا دینا
یہ ھجر روح کا سرطان بن چکا ھے بتول
کوئی مداوہ نہیں خاک میں ملا دینا