مسکرانے میں بڑی دیر لگی
آزمانے میں بڑی دیر لگی
اسکو کھونے میں تو اک پل نہ لگا
جس کو پانے میں بڑی دیر لگی
ھم کو بھی اس سے محبت تھی مگر
یہ بتانے میں بڑی دیر لگی
ہجر نے مار دیا تھا پہلے
موت آنے میں بڑی دیر لگی
یاد رکھنا کوئی آسان نہ تھا
بھول جانے میں بڑی دیر لگی
دل نے سینے سے رہا ہو کے کہا
قید خانے میں بڑی دیر لگی
راکھ ہوتا گیا پل بھر میں بتول
گھر بنانے میں بڑی دیر لگی