اب کے پھولوں نے کڑی خود کو سزا دی ہوگی
راہ گلشن کی خزاؤں کو دکھا دی ہو گی
جب وہ آیا تو کوئی در، کوئی کھڑکی نہ کُھلی
اس نے آنے میں بہت دیر لگا دی ہو گی
جا! تری پلکوں پہ برسات کا موسم ٹھہرے
بادلوں نے مری آنکھوں کو دعا دی ہو گی
رات جو چاند کو چُپکے سے بتائی میں نے
بات وہ سب کو ہوائوں نے بتا دی ہو گی
رنگ جو آنکھوں میں جھلکا ہے، اسی کا ہو گا
گلِ لالہ نے جگر کو جو قبا دی ہو گی
دوش اپنا بھی ہے کچھ بات بگڑ جانے میں
اور لوگوں نے بھی کچھ اِس کو ہوا دی ہو گی
شوخ انداز، چل مست صبا کو دے کر
ہم نے کلیوں کو سمٹنے کی ادا دی ہو گی
وہ بتول آئے گا ملنے کو، ملی جب سے خبر
کہکشاں زخموں کی رستے میں سجا دی ہو گی