عشق کی یہ سزا ہے اور میں ہوں
شامِ فُرقت، دیٌا ہے اور میں ہوں
ترے ہاتھوں میں ہاتھ غیروں کا
ضبط کا حوصلہ ہے اور میں ہوں
تُو اکیلا کہاں ہے، تیرے لیے
مرے لب پر دُعا ہے اور میں ہوں
دوستوں کا ہجوم ہے، تُو ہے
دشت کا سلسلہ ہے اور میں ہوں
کیوں نہ ماتم بپا ہو دل میں مرے؟
ہر طرف کربلا ہے اور میں ہوں
ترے سر پر ہے سانولی سی گھٹا
دھوپ کی یہ ردا ہے اور میں ہوں
کہکشاں ساتھ ساتھ ہے تیرے
درد کی انتہا ہے اور میں ہوں
میں نے خود سے کیا تھا ذکر ترا
ساری دنیا خفا ہے اور میں ہوں
مجھ کو حیرت سے دیکھ، سر پہ مرے
آسماں آ گرا ہے اور میں ہوں
چاروں اطراف تیرگی ہے بتول!
ہاتھ میں اک دیٌا ہے اور میں ہوں