1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. فرحت عباس شاہ/
  4. پاکستان جاپان دوستی کی اہمیت

پاکستان جاپان دوستی کی اہمیت

پاکستان میں جاپان کے سفیر ہزہانس مسٹر وادا مٹسُوہیرو نے پاکستان کے ایک انگریزی اخبار میں شائع کیے گئے اپنے ایک مضمون میں پاکستان کے ساتھ جاپان کے ستر سالہ دوطرفہ اقتصادی، ثقافتی، سماجی اور سیاسی بندھن اور باہمی رشتے کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان اور جاپان کے تعلقات مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی شاندار تاریخ کا نام ہیں۔ عزت مآب سفیر محترم نے اپنے آرٹیکل میں باہمی تعلقات کے بیشتر پہلؤوں پر روشنی ڈالی ہے۔

میں اگر تھوڑا اور زیادہ قدیمی رشتے کی طرف جاؤں تو وہ ہے جاپان اور پاکستان کے درمیان ادب و زبان کا رشتہ۔ اردو جو کبھی برصغیر کی زبان تھی بھارت میں مسلمانوں کی زبان سمجھے جانے کی بنیاد پر اس کے ساتھ ناروا امتیازی بلکہ اقلیتی سلوک کرنے کی وجہ سے اب یہ یہ صرف پاکستان کی قومی زبان ہی کے طور پر جانی اور پہچانی جاتی ہے۔

اردو زبان کا تعارف جاپان میں 1663ء میں ہوا تھا۔ اس سال ناگاساکی میں ہندوستان سے ایک کشتی اُتری تھی۔ جس کے ملاح کو آج بھی جاپانی مؤرخین "مُوْر" یا مسلمان کے طور پر جانتے ہیں۔ ادارہ جاتی تعلیم کے علاوہ ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز (ٹُفس)، اوساکا یونیورسٹی، ڈائٹوبُنکا یونیورسٹی اور کیوٹو یونیورسٹی میں برس ہا برس سے اردو پڑھائی جا رہی ہے۔ ان میں ٹوکیو یونیورسٹی آف فارین اسٹڈیز دسمبر 2008ء میں اردو تعلیم کے سو سال مکمل کرچکی ہے۔

جاپانی ادب کی بےشمار کتب کا ترجمہ اردو میں اور اردو کتابوں کا ترجمہ جاپانی زبان میں ہوچکا ہے۔ جاپانی شعری صنف ہائیکو کی پاکستان میں مقبولیت دونوں ممالک کے درمیان ادبی اپنائیت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور ہائیکو کی پسندیدگی کا عالم یہ ہے کہ ممتاز ناول نگار علی نوازشاہ، ممتاز شاعر اعجاز رضوی، ممتاز شاعر شفیق احمد خان اور ممتاز شاعر فیصل زمان چشتی کی قیادت میں چلنے والا حلقہء ارباب ذوق اور اب پاکستان رائیٹرز یونین ہرسال ہائیکو کا سالانہ مشاعرہ منعقد کرتے چلے آ رہے ہیں۔

اس میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں کہ پاکستان اور جاپان کے درمیان بہت مضبوط باہمی احترام و محبت سے لبریز تعلقات ہیں جو دیرینہ اعتماد اور تعاون پر استوار ہیں۔ 1952 میں سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سے، دونوں ممالک نے اقتصادی، ثقافتی اور تزویراتی شراکت داری کو فروغ دیتے ہوئے اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے مل کر کام کیا ہے۔

پاکستان اور جاپان کی دوستی کا آغاز اس وقت ہوا جب پاکستان نے اقوام متحدہ میں جاپان کی رکنیت کی حمایت کی۔ اس اقدام نے دونوں ملکوں کے درمیان ایک مضبوط تعلق کی بنیاد رکھی، جاپان پاکستان کے سب سے بڑے ڈونرز اور سرمایہ کاروں میں سے ایک بن گیا۔ کئی برسوں کے دوران ان کی شراکت داری مختلف عالمی اور علاقائی چیلنجوں سے بھی گزری ہے لیکن ہر بار یہ باہمی رشتہ سرخرو ٹھہرا۔

جاپان مشرقی ایشیا میں پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے جس کی دو طرفہ تجارت 2 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ پاکستان کے انفراسٹرکچر، توانائی اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں جاپانی سرمایہ کاری نے ملک کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان جاپان اقتصادی شراکت داری کے معاہدے (PJ EPA) نے تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو مزید فروغ دیا ہے۔

پاکستان کا تزویراتی محل وقوع اور جاپان کی اقتصادی صلاحیت علاقائی استحکام اور سلامتی کے لیے ان کی شراکت داری کو اہم بناتی ہے۔ دونوں ممالک دہشت گردی، انتہا پسندی اور جوہری پھیلاؤ کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ جاپان نے پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کی حمایت کی ہے اور کواڈریلٹرل کوآپریشن اینڈ کوآرڈینیشن میکنزم (QCCM) جیسے علاقائی فورمز میں شرکت کی ہے۔

ادب و ثقافت کے شعبے میں تمدنی تبادلے کے پروگراموں نے پاکستان اور جاپان کے درمیان عوامی تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔ پاکستان جاپان کلچرل ایسوسی ایشن اور جاپانی سفارت خانے کی ثقافتی تقریبات باہمی افہام و تفہیم اور اپنائیت کو فروغ دیتی ہیں۔ جاپان کے ممتاز و مایہ ناز پہلوان انوکی اور پاکستان کے پہلوانوں کے مقابلے جہاں دنیا بھر میں مقبول ہوئے وہاں پاکستان کے عوام کی طرف سے انوکی کے لیے محبت کے جذبات اور پسندیدگی کا اظہار آج تک ایک مثال کا درجہ رکھتا ہے۔ زبان و ادب اور مارشل آرٹس کے شعبوں میں پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں اور ایف ایس ننجا اکیڈمیز کے ساتھ جاپان کا تعاون دوطرفہ رشتوں کے فروغ کی اعلیٰ مثال ہے۔

معیشت اور بین الاقوامی امور کے طالب علم کی حیثیت سے میں یہ دیکھتا ہوں کہ پاکستان کو جہاں ایک طرف چین پر بڑھتے ہوئے انحصار کو توازن میں رکھنے کا چیلنج درپیش ہے تو دوسری طرف امریکہ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچنے سے بچانے جیسی مشکل کا سامنا ہے۔ مزید یہ کہ معاشی اور سیاسی بحران کے باعث ارباب بست و کشاد کی محدود حکومتی استعداد کے باعث بہت سارے مثبت ایونیوز نظر انداز ہونے لگے ہیں۔ ظاہر ہے موجودہ حکومت کی سیاسی بےبسی، افراتفری اور قابلیت ایسی نہیں کہ اس سے آٹو موبیل انڈسٹری کی تشویشناک صورتحال اور چین کی پاکستانی مارکیٹ میں جارحانہ رسائی کی طرف دھیان اور اس کے تجزیے کی توقع کی جائے۔ ان کی ساری توجہ اس بات پر لگی ہے کہ کسی طرح عوام کی مشکلات کم کیے بغیر اسے یقین دلا دیا جائے کہ حکومت نے اپنی سیاست، جان، مال کی پرواہ کیے بغیر ملک اور عوام دوستی کی انتہا کردی ہے۔

لہٰذا رہ سہہ کے صرف خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل ہی ایک آخری امید رہ گئی ہے کہ جس کی توجہ جاپان کی طرف دلائی جائے جو پاکستان کے ہر شعبے میں پاکستان کے ساتھ تعاون اور اشتراک بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔

دیکھا جائے تو پاکستان کی پالیسی بھی یہی ہے کہ دنیا بھر کے ساتھ متوازن دوطرفہ تجارتی اور سیاسی رشتے مضبوط کیے جائیں اور خوش قسمتی سے پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا معاشی ویژن بھی یہی ہے کہ نئے بین الاقوامی رشتوں کی آبیاری کے ساتھ ساتھ تمام دیرینہ دوستوں سے خاص طور پر تجارتی رشتوں کا بھرپور اعادہ ہو۔ گمان غالب ہے کہ جہاں اس وقت دنیا کے کچھ ممالک پاکستان سے اقتصادی تعلق بڑھانے میں ہچکچا رہے ہیں وہاں جاپان کی گرمجوشی کی عزت کرنا اور اس کے جواب میں پرتپاک انداز میں پیش آنا دونوں ممالک کی بہتری کے لیے ایک دروازے کا کام دے سکتا ہے۔