وہ خانوادہء نبی ﷺ سے تھی اور میرا شجرہ قریش سے ہے۔ معلوم نہیں کہ ہمارے بزرگوں کا ربط کیا رہا ہوگا مگر وہ مجھے برادر بزرگ اور استاد کہہ کر بلاتی اور میں جو کہ انسانوں کی شناخت رشتوں کے خانوں میں بانٹنے سے گریز کرتا آیا تھا، اسے قیصرہ ہی کہتا جو اس کا نام بھی تھا اور اس کی شاہانہ فطرت کے مطابق بھی۔
نوکری کرتی تو یوں جان لگا کے کہ خود کو اور ماتحتوں کو چین سے نہ بیٹھنے دیتی۔ رہتی تو یوں ٹھاٹھ سے کہ اس کے گھر کو ہم میوزیم کہتے۔ دفتر میں ہر کونہ اور میز اس کے دنیا بھر سے جمع کئے کانچ، چینی، پتھر اور لکڑی کے نوادرات سے بھرا ہوتا۔ وقت کی سب سے اچھی گاڑی اس کی ملکیت ہوتی اور اس کے گھر کی دعوت میں کھانوں کو دیکھ کر مغل بادشاہوں کا دستر خوان کا خیال آنے لگتا تھا۔
سفر پر یوں نکلتی کہ مارکوپولو اور ابن بطوطہ کو مات دے دی گی۔ جب بھی میسج آتا تو یہی کہ سر امریکہ روانگی ہے یا چین کا قصد ہے۔ دنیا کا کوئی ملک اور چپہ ایسا نہیں تھا۔ جو اس نے اپنے عبایہ کے ہمراہ سر نہ کیا ہو۔ پاسپورٹ پر سو سے زیادہ خطوں کے ویزے تھے۔ اور تو اور اس نے مکمل حجاب سمیت کاپا ڈوکیا کے غبارے اور چلی میں آدھ انجن اور چار سیٹوں والے جہاز بھی بھگتا ڈالے۔ کہتی تھی سر مجھے ڈر نہیں لگتا۔۔
قیصرہ ڈرتی بھی تو کیا۔ بچپن اور نوعمری میں ماں باپ کے سائے سے محروم ہو کر اور اکلوتی ہونے کے ناطے اکیلے جینے کا ہنر جان گئی تھی۔ والد کے بعد ان کے چچا کے پاس رہی اور ایک دن وہ بھی نہ رہے۔ منہ بولے رشتوں میں اس کا ایک بھائی، ہمارا نیپا کا بیچ میٹ ڈی آئی جی احمد مبین تھا، جو فروری 2017 میں لاہور میں دہشت گرد حملے میں شہید ہوگیا۔ اسے بھی آنکھوں کے سامنے دفن کیا اور اس کے بیوی بچوں کا سہارا بنی۔
حادثات اور زندگی کو نبھاتے قیصرہ یوں زندہ رہی کہ ٹیکس کی نوکری میں ہوتے ہوئے نیک نام بھی رہی اور وراثت اور محنت کی کمائی سے بہت سوں کا سہارا بنی۔ کتنی ہی دفعہ حج، عمرہ اور زیارات کی سعادت نصیب ہوئی اور کتنے ہی لوگوں کی زندگی اس سے جڑی تھی۔ زندگی یوں جی گئی کہ سرخی کے مصرع کی تصویر تھی۔ جس میں شمس رومی سے کہتے یا کہلواتے ہیں کہ غم اور عشق کا شرف نصیب ہوگیا ہے تو دیوانوں سا چیخنا، گریباں چاک کرنا اور زیادہ بات کرنا چھوڑ دے اور اس چراغ کی لو اپنے اندرون ہی میں جلنے دے۔
اس کی معیت میں کام، کھانوں اور اس کے میرے بچوں کی سالگرہ پر آنے جانے کی خوبصورت یادوں کے ساتھ اس کا میرے لئے خاص طور تہران سے اصفہان سفر کرکے دو منقش جلدوں میں لایا ہوا دیوان شمس تبریز، تادم زندگی میرے ساتھ رہے گا۔ فارسی اور شعر کا حسن جانتی تھی مگر اپنی قدرے choosy طبیعت کے باعث بہت سے لوگ اس کی حسن جمالیات سے پوری طرح آگاہ نہیں تھے۔ اکثر رومی اور حافظ کا کوئی شعر بھیجتی اور باہم تبصرے کے بعد بہت سعادتمندی کے ساتھ "جائے استاذ خالیست" کہہ کر میری انا کی تسکین کر جاتی۔ ہر خوشی اور غم پر اس کا میسج، فون یا آنا خوشی کو دو چند اور غم کو آدھا کر دیتا۔
پانچ جنوری کو دھند میں سفر کرکے بیٹی کی شادی پر پھوپھو بن کر آئی اور چار دن پہلے میسج کیا کہ "سر، گیارہ تاریخ کو لاہور، این ایم سی کرنے آرہی ہوں۔ ملاقات رہے گی۔ آج اس کا منتظر تھا کہ معلوم ہوا کہ سویرے جاگی ہی نہیں۔ رات کے کسی پہر کسی دوسری دنیا کی سیر کو نکل گئی ہے۔ داد و ستد کی کھری تھی سو ملک الموت کے کسی دن اور کے تقاضے کی نوبت بھی نہیں آئی۔ اسے بھی کہا ہوگا "سر! مجھے ڈر نہیں لگتا"۔
میرے دعائیہ کلمات کا اولین حصہ کہ "جیتی رہو" تو تم نے اللہ میاں سے سازباز کرکے پورا نہیں ہونے دیا۔ اب تمہارے خوش رہنے کی دعا کرسکتا ہوں۔ اور یہ بھی کہ اللہ تم جیسی بہنوں کو کبھی بھائیوں کی آنکھوں کے سامنے سے نہ لے جائے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون