1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حامد عتیق سرور/
  4. میرے ابو جان

میرے ابو جان

میری یادداشت میں سب سے پہلا محفوظ عکس لاہور میں شدید سردی کی ایک صبح کا ہے جس میں فجر کے بعد، ابو جان۔ کاندھوں پر رضائی اوڑھے ابلے ہوئے انڈے کے خول کو بتدریج توڑتے ہوئے اسے چمچ سے کھا رہے ہیں اور میں ان کی گود میں رضائی کے ایک پلو کے پیچھے دنیا کے محفوظ ترین گوشے میں چھپا ہوا ہوں۔

آج اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی حرارت، نرمی، سکون اور تحفظ کا وہ احساس میرے ذہن میں یوں تازہ ہے جیسے آج کا گزرتا ہوا لمحہ۔ بیس جون 2014 کو ان کا جسد خاکی لحد میں اتارتے ہوئے وقت مجھے یہ مکمل ادراک تھا کہ میرا یہ محفوظ مورچہ اب کبھی دوبارہ میسر نہیں آئے گا اور باقی کی زندگی یونہی بے سپر ہی گزرے گی۔

دس سال قبل آج ہی کے دن جمعہ کی نماز کے بعد میرے ابو جان 88 سال اس دنیا میں گزار کر اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے۔ جیسے ہم سب نے جانا ہے سو وہ بھی گئے مگر میری مرحومہ امی جان، ہم چار بہن بھائیوں اور بہت سے اور لوگوں سے جن سے ان کا ملنا رہا، کے دل سے نہیں گئے۔

سن 1926 میں پیدا ہوئے تو انگریز سرکار کا راج تھا۔ امرتسر سے بارہ میل دور جسپال کے گاوں کے ایک ہیڈماسٹر اور حکیم کے گھر جنم لیا اور سکھوں اور ہندووں کے ساتھ سکول کالج میں مقابلہ کرتے تعلیم مکمل کی۔ اکیس سال کے تھے جب ہندوستان کا بٹوارہ ہوا۔ باقی بھائی اتفاق سے پاکستانی علاقوں میں ملازمت کر رہے تھے۔ گھر میں سب سے چھوٹے تھے سو پاکستان بننے پر ماں، بھابھیوں اور بہنوں کو تنِ تنہا، کرپانوں اور جو بولے سو نہال کے شور میں چھپتے چھپاتے اور لڑتے لڑاتے پیدل لے کر نکلے اور ستلج دریا میں نہ کاٹی جانے والی آخری کشتی میں آخری سوار کے طور پر پاکستان میں پہنچے۔

والٹن سے کرشن نگر اور پھر فیصل آباد کے نواحی گاؤں تک کا ایک اور سفر ہر اس خاندان کی طرح کیا جس کی شرافت انہیں ماڈل ٹاؤن کے گھروں پر قبضہ کرنے اور تالے توڑنے سے روکتی تھی۔ ڈبل میتھ فزکس کی بی اے کی ڈگری بھی تقسیم میں امرتسر رہ گئی اور مزید تعلیم کا سلسلہ فوری ملازمت کی ضرورت کے تحت منقطع ہوا۔ سرکار کا امتحان پاس کرکے ڈویژنل اکاؤنٹنٹ ہوئے اور پھر اس زمانے میں ترقی کے مواقع کے تحت درجہ بدرجہ گریڈز کی سیڑھیاں چڑھتے ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچے۔ پڑھنے کا شوق تھا سو سرکاری نوکری کے دوران ہی آئی سی ایم اے کر لیا۔ تنخواہ سے پندرہ گنا مشاہرے پر گھوٹکی کی ایک کمپنی سے تعیناتی کا خط ملا مگر نہیں گئے کہ بچوں کی تعلیم پر ان کی غیر موجودگی سے برا اثر پڑے گا۔

مڑ کر دیکھتا ہوں تو سمجھ نہیں آتی کہ ان کی زندگی میں جو کچھ بھی تھا، ہمارے ہی گرد گھومتا تھا۔ اکیلے نہ کسی دوست کی طرف جاتے نہ کوئی خاص کھیل یا مشغلہ۔ اخبار، کتابیں اور قرآن باقاعدگی سے پڑھتے اور پہلے ریڈیو پر پھر ٹی وی آنے کے بعد حالات حاضرہ کے پروگرام سنتے اور دیکھتے۔ دفتر سے آن کر تھکے ماندے ہونے کے باوجود شام کو تین گھنٹے ہم سب بہن بھائیوں کو انگلش اور ریاضی پڑھاتے (اردو اور باقی مضامین امی جان کے ذمہ داری تھی)۔

رپورٹ کارڈز پر ایسی نظر تھی کہ آٹھویں جماعت میں سہ ماہی امتحان میں معاشرتی علوم میں میرے نمبر کم آئے تو ٹیچر سے میرا پرچہ نکلوایا اور مجھ سے زبانی سوالات کے جواب سنے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ مابدولت تفصیل سے لکھنے سے کتراتے ہیں اور بلٹ پوائنٹ میں جواب لکھنا پسند کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ اس سال گرمیوں کی تین مہینے کی چھٹیوں میں ہم تھے اور ابوجان کے لوہاری دروازے سے لائے ہو دس کلو بڑے کاغذ۔ ایک دن ایک باب کی تیاری ہوتی اور اگلے دن اس کا پرچہ۔ ہر چند کہ تفصیل نویسی کوئی قابلِ فخر بات نہیں، مگر ہمارا زمانے میں، جب میٹرک سے سی ایس ایس تک امتحان کے نمبر اضافی شیٹوں کی تعداد سے منسلک تھے، یہ ہنر ہمیں ہر دریا پار کرا گیا۔

گو باقی کی ایک بہن اور دو بھائی والدین کو مجھے ابو کا لاڈلا ہونے کا طعنہ دیتے تھے مگر پڑھائی میں ان سب کے ساتھ میرے والا سلوک ہی ہوا کرتا تھا۔ ہمیں دوست بنانے اور روزانہ شام کھیلنے کی مکمل اجازت تھی مگر اکثر دیکھنے میں آتا کہ ابوجان کی نگرانی کھیل کے میدان اور دوستوں کی منڈلی سے ایک مناسب فاصلے سے جاری رہتی ہے۔

یہ قصہ جبر کا نہیں، محبت اور احساس ذمہ داری کے آخری درجے کا ہے۔ چاروں بہن بھائیوں کو سکول کالج چھوڑنے کی ذمہ داری سے لے کر، گھر کے سودے سلف لانے، ہمیں ڈاکٹروں کی طرف لے جانے اور اپنے ماں باپ کا خیال رکھنے تک ان کو کبھی یہ کہتے نہیں سنا کہ میں تھک گیا ہوں یا مجھے زندگی سے کچھ اور چاہئیے تھا۔ اپنے بڑے بھائیوں، بہنوں اور ان کے بچوں کے کاموں سے بھی کبھی ماتھے پر بل نہیں آیا۔

مسجد میں نماز پڑھنے جاتے تو ہمیں ساتھ لے کر جاتے۔ تکلیف اٹھا لی مگر سرکار کے کام میں لقمہ حرام سے خود بھی دور رہے اور ہمیں بھی اس سے محفوظ رکھا۔

گورمکھی اور فارسی سے بھی اس زمانے کے پڑھے لکھے لوگوں کی طرح آشنائی تھی۔ شیخ سعدی کی گلستان قریب قریب یاد کر رکھی تھی۔ ہم گرمیوں کی راتوں میں گھر کی چھت پر متصل چارپائیوں پر ان سے سعدی کی حکایات سنتے۔ ان کی ماجھے کی پنجابی کی پہیلیاں بوجھتے اور ان سے فرمائش کرکے گورمکھی ابجد کی گردان سن کر اس کی" آڑا، اوڑا، اوڑی" پر بے وجہ اور بے تکان ہنستے۔ جون کی رات میں گرمی میں نیند نہ آتی تو ابو اور امی کے ساتھ مل کر "پور" گنتے (خیر پور، مرید پور، نور پور۔۔) حتی کہ ہوا کا ایک پور (جھونکا) آتا اور ہم سب میٹھی نیند سو جاتے۔

امی کے برعکس ان کو اردو شاعری سے زیادہ شغف نہیں تھا۔ ہم سب اصرار کرکے انہیں رات کی بیت بازی میں گھسیٹ لیتے تو ان کے پاس دو اشعار کا وسیع ذخیرہ تھا جس سے وہ میری امی کے احتجاج کے باوجود بیت بازی کا دھوبی پٹڑا کر دیا کر دیا کرتے تھے۔ الف آنے پر وہ ایک معرکہ الآراء شعر پڑھتے جس کا قافیہ ردیف "مونچھیں مروڑ" ہوتا تھا۔ اس پر ظاہر ہے کہ مقابلہ ختم ہو جاتا تھا کہ اس وقت گوگل وغیرہ نہیں تھے اور ڑ سے کوئی شعر شروع نہیں ہوتا تھا۔ ہماری ضد پر کہ یہ روند مارنے (cheating) کی بات ہے تو کہتے کہ ڑ سے شعر ہوتے ہیں۔ مثلاََ

"ڑ" کے پیچھے الف ہے اور آگے واو ہے

پوچھ تو بازار سے اس چیز کا جو بھاو ہے

آڑو کی اس خود ساختہ پہیلی نما شعر کے بعد بیت بازی اقبال اور میر کے ساتھ مشاعرے سے سیدھا خواب کی پھل منڈی پہنچ جاتی اور آنکھ کھلتی تو ہم اکیلے صبح کی دھوپ میں پڑے ہوتے۔

ان کی اس توجہ اور محنت کا صلہ تھا کہ بہن statistics کے ماسٹرز میں گولڈ میڈل لے کر پروفیسر بنیں۔ بڑے بھائی ریڈیالوجسٹ اور چھوٹا بھائی انجینئر اور ایم بی اے۔ امرتسر سے بارہ میل دور جسپال سے براستہ بابا بکالہ روڈ صبح چار بجے سائیکل پر سکول جانے والے سرور علی قریشی ہم سب کو اپنی اپنی منزل پہنچا کر، اپنی اولاد کی خوشیاں دیکھ کر اور بچوں اور ان کی اولاد کو روتا ہوا چھوڑ کر راہیء ملک عدم ہوئے۔ ان کے جسمانی وجود کو دفنا کر واپس آیا تو یوں لگا کہ اپنے جسم کا ایک حصہ قبرستان ہی میں چھوڑ آیا ہوں۔

باپ سراں دے تاج محمد۔۔

اللہ ان کی مغفرت کرے اور ان کی نیکیوں کے طفیل ہماری دنیا اور آخرت کو بہتر بنائے۔

رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا