اعجازِ نطق، ذہنِ درخشاں نہیں ملا
حرف و بیاں حضور کے شایاں نہیں ملا
ہم کو علیؑ سی فہم و فراست نہیں ملی
بوذر سا فقر، خرقہء سلماں نہیں ملا
نعتِ رسول ہم سے کہی جا سکے تو کیوں؟
سازِ سروش، نغمہء یزداں نہیں ملا
بے منفعت سے چار عقیدت کے قافیے
دردِ سخن کو داد کا درماں نہیں ملا
ہم ایسے بد نصیب کہ دعوا وفا کا ہے
لیکن نبی ﷺ کی ذات کا عرفاں نہیں ملا
ہم سے نہ جگ کا کام، بھلائی کا ہو سکا
ہم سے جہاں کو درد کا درماں نہیں ملا
انسان کے بھلے میں ہمارا تو کچھ نہیں
ایجاد، علم و شوق کا عرفاں نہیں ملا
ہم غربت و جہالت و افلاس کی نظیر
انبوہ جس کو زیست کا ساماں نہیں ملا
مسجد میں بارگاہ میں مسلم کا خون ہے
منبر پہ کوئی امن کا خواہاں نہیں ملا
ہم کو حضور آپ سے نسبت، کوئی نہیں
رحمت کی آنکھ اور دلِ سوزاں نہیں ملا
ہم نام لیوا آپ کے، وارث نہ بن سکے
جیسے ہمیں کو، آپ کا فرماں نہیں ملا
میرے رسول ﷺ، حلم ہیں، رحمت ہیں، علم ہیں
وحشت سے پاک ہم کو گریباں نہیں ملا
خود کو کہیں تو کیسے کہیں آپ کا غلام
دنیا کو ہم سے فیض کا امکاں نہیں ملا
اچھا ہے، لوگ خود ہی تلاشیں حضور ﷺ کو
اس بے بصر کو، ماہِ درخشاں نہیں ملا
مانے گا کون، ہم سے حقیروں کے قول سے
دنیا کو آپ سا شہِ دوراں نہیں ملا
اچھا ہے ہم سے، آپ کی پہچان نہ کریں
پھر یوں کہیں کہ، جادہء فاراں نہیں ملا