1. ہوم/
  2. غزل/
  3. حامد عتیق سرور/
  4. جام، بادہ، سبو، اداسی تھی

جام، بادہ، سبو، اداسی تھی

جام، بادہ، سبو، اداسی تھی
رند کی ہاو ہو، اداسی تھی

ایک گزرا ملال تھا، پیچھے
سامنے، روبرو، اداسی تھی

خوف تھا، ڈر تھا جبر تھا شاید
یا زمانے کی خو، اداسی تھی

ایک قریہ تھا، کچھ جلے گھر تھے
خامشی، چار سو اداسی تھی

ساتھ رہتے تھے اور گلیوں میں
سرخ، بہتا لہو، اداسی تھی

ایک دریا تھا درمیاں اپنے
یم بہ یم، جو بہ جو اداسی تھی

مسکراہٹ پہ آئنہ چپ تھا
عکس میں ہو بہو اداسی تھی

خامشی تھی تو ایک وحشت تھی
اور دمِ گفتگو اداسی تھی

شام کے سرمئی کنارے پر
درد کی سرخ رو، اداسی تھی