تیز دھوپ کے باعث آنکھیں کھولنا مشکل ہو رہا تھا۔ پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد کی پارکنگ اور گیٹ نمبر پانچ کے درمیان صرف چند گز کا فاصلہ ہے لیکن اس مختصر فاصلے کو طے کرنے کیلئے میں لمبے لمبے قدم اٹھا رہا تھا تاکہ تیز دھوپ سے بچ سکوں۔ ابھی میں انٹری گیٹ تک نہیں پہنچا تھا کہ ایک پولیس افسر بھاگتا ہوا میری طرف آیا اور مجھے روک کر کہنے لگا صرف چند سیکنڈ کیلئے میری بات سن لیں۔ تیز دھوپ کے باعث میری آنکھیں بند تھیں میں نے اس پولیس والے سے گزارش کی کہ تھوڑا آگے جا کر سائے میں بات کر لیتے ہیں۔ اس نے کہا آگے میرے ماتحت کھڑے ہیں اُن کے سامنے بات نہیں کر سکتا آپ کو صرف اتنا کہنا تھا کہ کچھ دن پہلے آپ جیو نیوز پر لائیو پروگرام میں وزیراعظم عمران خان کا انٹرویو کر رہے تھے اور وہ فرما رہے تھے کہ جس جس نے ناجائز ذرائع سے دولت اور جائیداد بنائی ہے وہ ہماری اسکیم کا فائدہ اٹھائے اور اپنے ناجائز اثاثوں کے بارے میں حکومت کو بتا دے تو اُسے کچھ نہیں کہا جائے گا، آپ نے وزیراعظم صاحب سے یہ نہیں پوچھا کہ کیا ریاستِ مدینہ میں کالے دھن کو سفید کرنے کی شریعت میں کوئی اجازت ہے؟ یہ سُن کر میں نے اپنی آدھی بند آنکھوں کے ساتھ مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو یہ پولیس والا میرے آگے کھڑا ہو گیا اور کہنے گا "صاحب جی ہم آپ کو بڑا پرانا جانتے ہیں، آپ ہمیں جانتے ہیں، نہ آپ کسی کا کام کرتے ہیں نہ ہم نے آپ کو کوئی کام کہنا ہے، بس وزیراعظم کو یہ کہہ دینا کہ آپ نے پاکستانیوں کو ریاستِ مدینہ کا خواب دکھا کر کربلا میں دھکیل دیا ہے لیکن یہ بھول گئے کہ پاکستانیوں کے قافلے میں صرف بہتر (72)لوگ نہیں ہیں، 20 کروڑ سے زائد لوگ ہیں اور ان میں سے 20 ہزار پاگل لوگ بھی اس پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے آ کر بیٹھ گئے تو عمران خان صاحب اپنا 2014ء والا دھرنا بھول جائیں گے"۔
یہ بات کہہ کر پولیس والا میرے سامنے سے ہٹ گیا۔ میں پارلیمنٹ ہائوس کے اندر داخل ہو کر پریس گیلری کی طرف جا رہا تھا جس کے لائونج میں تحریک انصاف کے دو ارکانِ پارلیمنٹ میرا انتظار کر رہے تھے۔ یہ ہفتہ کا دن تھا۔ بجٹ جمعہ کو منظور ہو چکا تھا۔ آج سپلیمنٹری گرانٹس پر بحث ہونا تھی۔ اپوزیشن کی قیادت قومی اسمبلی سے غائب تھی اور حکومتی ارکان پر ایوان کے اندر موجود رہنے کا دبائو کم تھا۔ تحریک انصاف کے یہ دو ارکان کافی دنوں سے ملاقات کے متمنی تھے۔ آج صبح ان کا میسج آیا کہ ہم ساڑھے گیارہ بجے پریس گیلری کے لائونج میں آئیں گے اور آپ کو لے کر ایک دوست وزیر کے چیمبر میں بیٹھ جائیں گے۔ پریس گیلری کی طرف جانے والی سیڑھیوں پر مجھے کسی نے پیچھے سے آواز دی۔ مڑ کر دیکھا کہ قومی اسمبلی کے سیکورٹی اسٹاف کے ایک سینئر اہلکار مجھے رکنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ وہ مجھے ایک کونے میں لے گئے۔ سخت پریشان تھے۔ کہنے لگے آپ کو کبھی زحمت نہ دیتا لیکن ایک عجیب مسئلہ درپیش ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ اسمبلی کا ایک ریٹائرڈ ملازم کافی دنوں سے بیمار تھا۔ علاج کیلئے گائوں سے اسلام آباد آیا۔ پمز اور پولی کلینک میں دھکے کھاتا رہا پھر راولپنڈی کے ایک اسپتال میں چلا گیا۔ طبیعت زیادہ خراب ہو گئی لیکن اسے اسپتال میں داخل نہیں کیا گیا۔ وہ اسپتال کے قریب ایک لان میں جا لیٹا۔ وہاں سے اٹھا دیا گیا تو ایک قریبی پارک میں چلا گیا۔ وہاں اس کا انتقال ہو گیا۔ پولیس نے لاش مردہ خانے میں جمع کرا دی۔ لواحقین اس بزرگ کی تلاش میں اٹک سے اسلام آباد آئے تو ہم نے اُنہیں بتایا کہ وہ راولپنڈی چلا گیا تھا۔ وہاں جا کر اُنہیں پتہ چلا کہ وہ فوت ہو چکا ہے اور لاش مردہ خانے میں پڑی ہے لیکن اسپتال اور پولیس کا عملہ لاش نہیں دے رہا تھا۔ دو دن کی دوڑ دھوپ کے بعد کاغذی کارروائی مکمل ہوئی تو متوفی کے بھائی اور بیٹے کے پاس واپسی کے پیسے نہیں تھے کیونکہ لاش کو ایمبولینس میں لے جانا تھا۔ ایمبولینس والوں نے بھی اپنا کرایہ بڑھا دیا تھا۔ اسمبلی میں اس بزرگ کے کچھ پرانے ساتھیوں نے ایمبولینس کا کرایہ جمع کرنے کی کوشش کی لیکن مہینے کے آخری دن ہیں ہماری تنخواہ تو پندرہ تاریخ تک ختم ہو جاتی ہے آپ سے گزارش ہے کہ کسی سرکاری ایمبولینس کا بندوبست کرا دیں۔ یہ کہانی سن کر دل دہل گیا۔ ان صاحب کیلئے ایک پرائیویٹ اسپتال کی ایمبولینس کا بندوبست کر کے پریس گیلری پہنچا تو تحریک انصاف کے دونوں ارکان بڑے پریشان تھے۔ وہ مجھے فوراً ایک دوست وزیر کے چیمبر میں لے گئے۔ وزیر صاحب نے مجھے دیکھا اور اعلان کیا کہ وزیراعظم صاحب اسمبلی میں آنے والے ہیں مجھے ایوان میں جانا ہے۔ میں نے بتایا کہ آج تو ایوان میں نہ شہباز شریف ہیں، نہ بلاول ہیں اور زرداری صاحب بھی ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے دفتر میں میٹنگ کر رہے ہیں۔ بجٹ بھی منظور ہو چکا آج وزیراعظم کیا تقریر کریں گے؟ وزیر نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ میدان بالکل خالی ہے آج ہم خوب دھول اڑائیں گے۔ جاتے جاتے انہوں نے اپنے دو ساتھیوں سے کہا کہ جیسے ہی وزیراعظم ایوان میں آئیں تم فوراً اندر آ جانا ورنہ بعد میں مشکل ہو سکتی ہے۔
وزیر صاحب یہ جملہ بول کر چلے گئے اور میں سوالیہ نظروں سے دونوں سرکاری ارکان کو دیکھنے لگا۔ ایک رکن نے بڑے معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ بھائی جی آپ کو کیا بتائیں۔ اس بجٹ اجلاس میں ہماری حاضری کو یقینی بنانے کیلئے ہمارے علاقوں کے سرکاری افسران اور پولیس کے علاوہ نجانے کس کس نے سائے کی طرح ہمارا پیچھا کیا۔ اگلے پندرہ منٹ میں انہوں نے فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے ایک بہت بڑے اسکینڈل کی تفصیلات سے ہمیں آگاہ کیا اور کہا کہ ایک بہت بڑی کمپنی امریکہ اور یورپ میں کینسر جیسی موذی بیماری پھیلانے کے بعد پاکستان آ رہی ہے، ہم نے تو اسے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن ہم ناکام ہو گئے اب آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ اس دوران وزیراعظم صاحب ایوان میں تشریف لے آئے اور دونوں ارکان بھاگ کھڑے ہوئے۔ میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے دفتر میں آ گیا جہاں نیب کے قیدی آصف علی زرداری نے مجھے دیکھتے ہی پوچھا، سنا ہے آپ کے سلیکٹڈ وزیراعظم نے اپنے وزیرِ قانون کے ذریعہ بار ایسوسی ایشنوں میں 17 کروڑ تقسیم کر دیئے؟ سلیم مانڈوی والا نے کہا "اسے کہتے ہیں ریاستِ مدینہ"۔ یہاں سے باہر نکلا تو تحریک انصاف کے ایک سینئر رہنما پاکستان اور افغانستان کے کرکٹ میچ کا اسکور پوچھ رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر قریب آئے اور کان میں کہا کہ آج پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ(ن) کے ایک درجن سے زائد ارکان ٹوٹ گئے ہیں اور وزیراعظم کو بھی مل رہے ہیں۔ میں نے پوچھا "کتنے میں خریدے؟" وہ کچھ بوکھلا گئے اور کہا نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ میں نے مسکرا کر کہا کہ میرے بھائی سب کو نظر آ رہا ہے ریاستِ مدینہ میں کیا ہورہا ہے۔