سیاست میں تلخیاں مزید بڑھنے والی ہیں۔ مزید مقدمات اور مزید گرفتاریوں پر حکمران خوشیوں کے ڈھول پیٹتے نظر آئیں گے لیکن یہ ڈھول ایک نئی جنگ کا طبل بن جائیں گے۔ اس جنگ سے گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ جو اپنے آپ کو بڑا بااختیار سمجھتے ہیں، وہ بے اختیار ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اختیار کا تعلق اقتدار سے نہیں بلکہ اخلاقی معیار سے ہوتا ہے۔ جو جتنا سچا اور باخبر ہوتا ہے، جو جتنا عوام کے قریب ہوتا ہے وہ اتنا زیادہ بااختیار ہوتا ہے۔ جو اپنے وعدے پورے نہ کرے، جس کے فیصلوں کی بنیاد غلط خبریں ہوں، وہ تیزی کے ساتھ بے اختیار ہوتا چلا جاتا ہے۔ بس دیکھتے جایئے۔ کچھ انتظار کیجئے۔ آج کل بہت سے بااختیار لوگ بے خبری کے سمندر میں غوطے لگا رہے ہیں۔ یہ ڈوبنے سے بچ گئے تو معجزہ ہو گا۔ ان بے خبروں کا تعلق صرف حکومت سے نہیں بلکہ اپوزیشن سے بھی ہے۔ یہ عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔ یہ عوام کے مفاد میں نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفاد میں جب چاہے چیخنا شروع کر دیتے ہیں، جب چاہے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ خاموشی کی اصل وجہ بتاتے ہیں نہ چیخوں کی لیکن گھبرایئے نہیں۔ سب کی سچائیاں سامنے آئیں گی۔ سب کے نقاب اتریں گے۔ چراغ سب کے بجھیں گے لیکن اندھیرا نہیں ہو گا۔ مجھے نئی روشنیاں نظر آ رہی ہیں اور یہ روشنیاں بھی اسی پارلیمنٹ میں سے نمودار ہو رہی ہیں جس پارلیمنٹ میں آج کل بہت شور شرابہ اور ہاہاکار مچی نظر آتی ہے۔ پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا نے پچھلے ہفتے ایک ایسی قرار داد منظور کی ہے جس پر میرا سر فخر سے بلند ہو گیا۔ جی ہاں! سینیٹ آف پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن نے اتفاق رائے سے ایک قرار داد منظور کر ڈالی۔ قرار داد کے محرک جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان تھے۔ مشتاق صاحب نے مجھے کہا کہ یہ قرار داد آپ کے پچھلے کالم "شیر کی موت" کو سامنے رکھ کر تیار کی گئی لیکن مجھے کوئی غلط فہمی نہیں۔ یہ قرار داد اپوزیشن کی طرف سے آئی اور حکومت کے کسی ایک بھی سینیٹر نے اس کی مخالفت کی نہ اس میں ترمیم تجویز کی۔ اس قرار داد کا منظور ہونا موجودہ حالات میں ایک غیر معمولی واقعہ ہے اور اس کا کریڈٹ اُن تمام سینیٹرز کو جاتا ہے جنہوں نے اس قرار داد کے حق میں ووٹ دے کر صرف پاکستانی عوام کے جذبات کی ترجمانی نہیں کی بلکہ دنیا بھر کے جمہوریت پسندوں کی طرف سے آمریت کے ایڈونچر کرنے والوں کو پیغام دیا کہ پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں جمہوریت کو ختم کیا گیا یا آئین پامال کیا گیا تو ہم سب مل کر آواز بھی اٹھائیں گے اور مزاحمت بھی کریں گے۔
اس تاریخی قرار داد کو میڈیا میں زیادہ اہمیت نہیں ملی۔ شاید اس لئے کہ سینیٹر مشتاق احمد خان نے یہ قرار داد انگریزی میں پیش کی اور اس میں بار بار سویلین بالادستی کا ذکر تھا۔ سینیٹ آف پاکستان نے اس قرار داد کے ذریعہ مصر کے سب سے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کی دورانِ قید المناک موت پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے جمہوریت، آئین پسندی اور سویلین بالادستی کے لئے محمد مرسی کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ قرار داد میں کہا گیا کہ محمد مرسی کی جدوجہد اور ثابت قدمی ہمیں پاکستان کے اُن لیڈروں کی یاد دلاتی ہے جنہوں نے جمہوریت اور سویلین بالادستی کے لئے ڈکٹیٹروں کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا۔ سینیٹ آف پاکستان نے ہیومن رائٹس واچ کے اس مطالبے کی تائید کی کہ جن حالات اور وجوہات کے باعث محمد مرسی کی موت ہوئی ان کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں۔ اس قرار داد میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ ایک لیگ آف ڈیموکریٹک اسٹیٹس (جمہوری ریاستوں کا اتحاد) بنایا جائے تاکہ ڈکٹیٹروں کے ایڈونچر ازم کے خلاف مزاحمت کی جائے۔ اس قرار داد میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے مصر میں سیاسی قیدیوں کے فیئر ٹرائل کو یقینی بنایا جائے اور اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس چارٹر کے علاوہ او آئی سی ہیومن رائٹس چارٹر (قاہرہ ڈیکلریشن 1990ء) کی خلاف ورزی کو روکا جائے۔ یہ بھی سُن لیجئے کہ قرار داد کے آغاز میں سینیٹر مشتاق احمد خان نے فرمایا کہ "میں یہ قرار داد لیڈر آف دی ہائوس اور لیڈر آف دی اپوزیشن کے ساتھ مل کر پیش کر رہا ہوں"۔
کچھ سمجھ آئی آپ کو؟ پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں حکومت اور اپوزیشن نے مل کر مصر کے صدر جنرل عبدالفتح السیسی اور اُس کے تمام عالمی سر پرستوں کی مذمت کر دی۔ اس قرار داد کی منظوری سے اگلے دن امیرِ قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تو انہیں 21توپوں کی سلامی دی گئی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اتفاق سے پاکستان میں نہیں تھے وہ برطانیہ میں تھے لیکن پاکستان کے صدر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان نے امیرِ قطر کی جو عزت افزائی کی وہ سینیٹ کی قرارداد کی طرح بہت غیر معمولی تھی کیونکہ امیرِ قطر دنیا کے اُن چند حکمرانوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی مذمت کی، انہوں نے محمد مرسی کے ساتھیوں کو قطر میں پناہ دی جس پر ایک عرب ملک نے اعتراض کیا۔ امیرِ قطر نے محمد مرسی کی موت پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار بھی کیا۔ امیرِ قطر اور نواز شریف کے خاندان میں دوستانہ تعلقات بھی ڈھکے چھپے نہیں۔ انہی دوستانہ تعلقات کی وجہ سے کچھ عرب ممالک نواز شریف سے دور ہو گئے تھے کیونکہ قطر کو ایران کا خاموش اتحادی سمجھا جاتا ہے۔ امیرِ قطر کی پاکستان میں عزت افزائی پر کئی عرب دارالحکومتوں میں پیشانیوں پر بل پڑ چکے ہیں اور خارجہ محاذ پر پاکستان کے لئے کئی نئی پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس صورتحال میں وزیراعظم عمران خان کو داخلی استحکام کی ضرورت ہے لیکن وہ داخلی استحکام کے تقاضوں سے بے خبر نظر آتے ہیں۔ کوئی بھی ذی شعور اس امر کی تردید نہیں کر سکتا کہ حکومت اور اپوزیشن میں میثاق معیشت کا کسی ایک پارٹی یا افراد کو نہیں پورے ملک کو فائدہ ہے لیکن تحریک انصاف کی قیادت نے میثاق معیشت کی تجویز کو این آر او کی کوشش قرار دے کر ایک گالی بنا دیا ہے لہٰذا فی الحال میثاق معیشت کو بھول جایئے۔
پاکستان کی سیاست میں ایک نئی جنگ کا میدان سج چکا ہے۔ نواز شریف اور آصف زرداری ایک دفعہ پھر جیل میں ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں یہ لڑائی پارلیمنٹ سے باہر لڑنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں اور مولانا فضل الرحمٰن کو اپنا سپہ سالار مقرر کر چکی ہیں۔ اندر کی خبر یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے مولانا صاحب سے رابطہ کیا ہے تاکہ انہیں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی سے علیحدہ کیا جائے لیکن مولانا صاحب جانتے ہیں کہ ان کی سیاسی بقا مفاہمت میں نہیں مزاحمت میں ہے۔ عمران خان نے مفاہمت کو گالی بنا دیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے کچھ اتحادی بھی اس گالی سے نجات چاہتے ہیں لیکن گھبرانا نہیں۔ اسی توڑ پھوڑ اور تخریب میں سے تعمیر جنم لے گی۔