یہ افراتفری سے بھرپور ایک یادگار دن تھا۔ کچھ لوگوں کو تفریط کی یہ افراط گراں گزری اور بہت سے ایسے بھی تھے جن کو اس تفریط نے تفریح مہیا کی۔ گیارہ جون 2019ء کو قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کیا جانا تھا۔ اس دن کا آغاز پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کی گرفتاری سے ہوا۔ کچھ دیر کے بعد لندن سے خبر آئی کہ متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کو لندن میں پوچھ گچھ کے لئے حراست میں لے لیا گیا ہے۔ دوپہر کو وزیراعظم عمران خان نے اپنی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ان گرفتاریوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شکر ہے اللہ تعالیٰ کو پاکستان پر رحم آگیا ہے۔ ان کے شکر کی اصل وجہ آصف زرداری کی گرفتاری تھی جو ایک دن قبل دس جون کو ہوئی تھی۔ عمران خان کو دسمبر 2018ء سے یہ بتایا جا رہا تھا کہ بہت جلد آصف زرداری گرفتار ہو جائیں گے لیکن زرداری کی گرفتاری میں تاخیر ہوتی گئی۔ پھر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی ہو گئی اور وہ علاج کے لئے بیرونِ ملک چلے گئے۔ عمران خان سے کہا گیا کہ اب شہباز شریف کبھی واپس نہیں آئیں گے لیکن شہباز شریف واپس آگئے۔ ان کی واپسی کے ساتھ ہی آصف زرداری کو گرفتار کر لیا گیا۔ زرداری کی گرفتاری سے اگلے روز حمزہ شہباز اور الطاف حسین کی گرفتاری پر عمران خان کی خوشی دیدنی تھی۔ ایسی خوشی کسی بائولر کو ہیٹ ٹرک کرنے پر ملتی ہے۔ اوپر تلے تین گرفتاریاں۔ گیارہ جون کو مہنگائی سے پریشان عوام کے خالی ہاتھ پر تین گرفتاریاں رکھ دی گئیں۔ شام کو وزیراعظم عمران خان فاتحانہ انداز میں قومی اسمبلی میں آئے تو ان کے کان میں بتایا گیا کہ اپوزیشن سے بات ہو گئی ہے، بجٹ تقریر میں کوئی گڑبڑ نہیں ہوگی۔ بجٹ تقریر شروع ہوئی تو شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کچھ منٹ خاموش رہے۔ شاید وہ یہ چاہتے تھے کہ حفیظ شیخ کی تیار کردہ اس تقریر میں نئے ٹیکسوں کے اعلانات عوام اپنے کانوں سے سن لیں۔ جب کافی سارے ٹیکسوں کا اعلان ہوگیا تو قومی اسمبلی کی کچھ خواتین ارکان نے پچھلے بنچوں پر جاکر اپنے آنچلوں سے بینر نکالنا اور مرد ارکان میں تقسیم کرنا شروع کر دئیے۔ سب سے پہلے سندھ سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی اکھیل داس آئی ایم ایف کے خلاف بینر اٹھائے وزیراعظم عمران خان کے پاس پہنچے اور نعرے لگانا شروع کر دئیے۔ پھر مسلم لیگی خواتین جتھہ بناکر بلاول کے پاس جمع ہوئیں اور نعرے لگاتے ہوئے وزیراعظم کی طرف بڑھیں لیکن شہریار آفریدی، فیصل وائوڈا اور کچھ دیگر جانباز وزراء نے اپنے وزیراعظم کے اردگرد حفاظتی حصار بنا لیا۔
پریس گیلری سے صاف نظر آرہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے کچھ سینئر رہنما ہلہ گلا کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہے تھے لیکن ان کے ساتھی غصے سے بھرے ہوئے تھے اور پھر جب دھکم پیل شروع ہوئی تو پریس گیلری میں میرے سمیت نصرت جاوید، فاروق اقدس اور کاشف عباسی کے چہروں پر پریشانی کے آثار نمایاں ہوگئے۔ اپوزیشن ارکان بجٹ دستاویزات پھاڑ پھاڑ کر وزیراعظم کی طرف اچھال رہے تھے۔ یہی کچھ تحریک انصاف بھی ماضی میں کرتی رہی ہے۔ مجھے اسد عمر اور علی محمد خان کی وہ تقاریر یاد ہیں جو وہ آئی ایم ایف کے خلاف کیا کرتے تھے۔ آج وہی کچھ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کر رہی تھی۔ ہمارے سامنے تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کی کچھ خواتین میں ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ ظاہر ہے تحریک انصاف والیوں کا پلڑا بھاری تھا۔ یہ سب بہت برا ہو رہا تھا۔ وزیر مملکت برائے محصولات حماد اظہر نے گرد و پیش پر توجہ دئیے بغیر اپنی تقریر جاری رکھی اور حفیظ شیخ بار بار اٹھ کر حماد اظہر کی تقریر کا جائزہ لیتے رہے۔ ان کا بار بار اٹھ کر حماد اظہر کی تقریر پر نظر ڈالنا مجھے ناگوار گزرا کیونکہ اس انداز میں شفقت کم اور بے رحمی زیادہ تھی۔ آخر کار تقریر ختم ہوئی اور اسپیکر نے اجلاس اگلے دن کے لئے ملتوی کر دیا۔ پارلیمنٹ ہائوس کی راہداریوں ہی میں پتا چل گیا کہ وزیراعظم نے رات سوا نو بجے قوم سے خطاب کا فیصلہ کر لیا ہے کیونکہ پی ٹی وی والوں کی دوڑ بھاگ شروع ہو چکی تھی۔ پھر معاملہ ساڑھے دس بجے رات پر جا پہنچا۔ بارہ بجے کے قریب وزیراعظم صاحب ٹی وی پر نمودار ہوئے اور اپوزیشن پر خوب برسے۔ انہوں نے گزشتہ دس سال کے دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کی طرف سے لئے گئے قرضوں کی انکوائری کا اعلان کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ ان کا قائم کردہ انکوائری کمیشن موجودہ حکومت کے مشیر خزانہ حفیظ شیخ کو بھی بلائے گا جو پیپلز پارٹی کے وزیر خزانہ تھے؟ پیپلز پارٹی کے دور میں غیر ملکی قرضے آصف علی زرداری کی تجوریوں میں جا رہے تھے تو حفیظ شیخ اس وقت کیوں خاموش رہے؟ بہرحال ایک دفعہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جانا چاہئے۔ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو اکثر 12 مئی 2007ء کو کراچی میں ہونے والی خونریزی کی انکوائری کا مطالبہ بھی کیا کرتے تھے۔ گیارہ جون کو الطاف حسین کو لندن میں گرفتار کیا گیا تو عمران خان کو اس پر بھی کچھ کہنا چاہئے تھا۔ وہ نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرداری پر تو بہت برس رہے ہیں لیکن الطاف حسین پر کیوں خاموش ہیں؟ 12 مئی 2007ء کو عمران خان نے جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں الطاف حسین کو کراچی میں قتل و غارت کا ذمہ دار قرار دیا تھا اور عمران خان کے ان الزامات کے نتیجے میں الطاف حسین کے حکم پر کراچی میں جیو نیوز کو کیبل پر سے غائب کر دیا گیا۔ اس وقت کے صدر پرویز مشرف اتنے ناراض ہوئے کہ پیمرا کے ذریعے مجھ پر ریاست دشمن سرگرمیوں کا الزام لگا دیا۔ آج عمران خان وزیراعظم ہیں، وہ چاہیں تو 12 مئی 2007ء کے واقعات کی انکوائری کے لئے کمیشن بنا سکتے ہیں لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ الطاف حسین کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم آج کل وزیر قانون ہیں۔ فروغ نسیم کا کمال یہ ہے کہ وہ الطاف حسین کے بھی وکیل تھے اور پرویز مشرف کے بھی وکیل تھے۔ ایک پر ریاست سے غداری کا الزام، دوسرے پر آئین سے غداری کا الزام۔ فروغ نسیم نے سالہا سال تک الطاف حسین کی منی لانڈرنگ کا برطانوی عدالتوں میں دفاع کیا، آج کل ان کی وجہ شہرت سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججوں کے خلاف ریفرنس بنوانا ہے۔
فروغ نسیم نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو جو ریفرنس بھجوایا ہے وہ غیر ملکی اثاثے ڈکلیئر نہ کرنے سے متعلق ہے لیکن یہ کوئی راز نہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ناراضی کی اصل وجہ فیض آباد دھرنا کیس میں ان کا فیصلہ ہے جس میں کہا گیا کہ اگر 12 مئی 2007ء کو کراچی میں قتل عام کرنے والوں کو سزا مل جاتی تو تحریک لبیک کو فیض آباد میں ہنگامہ آرائی کی جرأت نہ ہوتی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں وہی کچھ لکھا جو عمران خان بھی اپوزیشن کے دنوں میں بار بار کہتے رہے لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ آج عمران خان صاحب پرویز مشرف، الطاف حسین اور آصف زرداری کے پرانے وزیروں اور مشیروں میں گھرے ہوئے ہیں۔ عمران خان بار بار آصف زرداری کو سبق سکھانے کے عزم کا اظہار تو کر رہے ہیں لیکن 12 مئی 2007ء کو کراچی میں قتل عام کروانے والے الطاف حسین اور اسی دن اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے مکے لہرانے والے پرویز مشرف کے بارے میں خاموش ہیں۔ عمران خان نے اپنے کچھ قریبی دوستوں کو خبر دی ہے کہ آنے والے دنوں میں شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی اور بلاول بھٹو زرداری بھی گرفتار ہو جائیں گے۔ مریم نواز کے خلاف بھی ایک نیا کیس تیار کیا جا رہا ہے۔ ان سب کو آپ شوق سے پکڑیں اور نئی نئی انکوائریاں بھی کرائیں لیکن ہمیں 12مئی 2007ء کو کراچی میں ہونے والے قتل عام کی انکوائری کا انتظار ہے کیونکہ آپ نے اس دن پوری قوم کے سامنے قتل عام کی ذمہ داری الطاف حسین پر عائد کی تھی۔