اس وقت عالمی طاقتوں کی خارجہ پالیسیوں کی طرف نظر دوڑائیں تو ایک نیا منظر نامہ تشکیل پا رہا ہے۔ امریکہ، روس، چائنہ، فرانس، بھارت، پاکستان، برازیل، یورپی ممالک اور دیگر طاقتوں نے اپنی خارجہ پالیسیوں میں خاصی کروٹ لی ہے۔ بڑھتی دنیا کے ساتھ ساتھ ان سب کے رحجانات، مفادات، نقصانات اور رد عمل میں بھی پچھلی دہائیوں کی نسبت خاصی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ یہ نئے رحجانات ہمیں مستقبل میں ہی واضح کرسکتے ہیں کہ ان کی تبدیلی کس دور میں داخل ہوتی ہے مگر ان رحجانات کے پیش نظر سب ممالک نئے اتحاد پیدا کررہے ہیں۔ اور کئی ممالک تو اپنے دیرینہ دوستوں سے منہ موڑ کر نئے اتحاد بنانے اور نئی پالیسیوں پر عمل پیرا ہورہے ہیں۔
امریکہ کی خارجہ پالیسی بڑی تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ جس سے ایک بات تو واضح ہورہی ہے کہ امریکہ اب کسی بھی قسم کی جارہانہ کاروائیوں سے پیچھے ہٹ رہا ہے یا پھر براہ راست کسی بھی شورش میں پڑنے کے موڈ میں نہیں۔ اگر چہ چند ایک ممالک کے ساتھ اس کا رویہ اب بھی جارہانہ ہے مگر وہ ان سے بھی براہ راست کوئی تصادم کرنے کی بجائے کسی اور ملک کے کندھوں پر بندوق رکھ کر چلانا چاہتا ہے یا پھر تجارتی پابندیوں اور معاشی بندشوں کے ذریعہ سے ان کو کنٹرول رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ امریکہ اب فوج اور ہتھیاروں کی بجائے معاشی سرگرمیوں کے زریعہ جنگ لڑنا اور ممالک کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ اور اس میدان جنگ میں اس کا سب بڑا حریف چین ہے جو امریکہ کے معاشی اقتدار کو چھیننے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ان خدشات کے پیش نظر امریکہ کئی دیرینہ قرابت داریوں کو پس پشت رکھ کر نئے ممالک سے رومانس چلانے کے موڈ میں نظر آتا ہے۔
چنانچہ امریکہ ہر طرح کی شورشوں سے دور رہنے اور خاموش رہنے کو ترجیح دے رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دہائی پہلے جب کسی بھی ملک میں حالات ذرہ بھر بھی کشیدگی کی طرف جاتے تھے تو امریکہ فوراً بیچ میں مداخلت کرکے اس ملک کو کنٹرول میں لینے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتاتھا۔ جیسے عراق، کویت، ویتنام، لیبیا، مصر اور افغانستان وغیرہ۔ مگر موجودہ حالات میں کسی ملک کی کشیدہ صورتحال پرامریکہ مذمتی بیانات دے کر جان چھڑوارہا ہوتا ہے۔ کیونکہ ٹرمپ نے امریکہ کی خارجہ اور وار پالیسی میں خاصی تبدیلیاں کی ہیں جو کہ اب کھل کر نظر آنا شروع ہوئی ہیں۔۔ افغانستان میں طالبان سے 19 سال کی طویل اور بے نتیجہ جنگ جس میں امریکہ نے اربوں ڈالر جھونک دئے ہیں اس نے امریکہ کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ اب امریکہ کسی بھی شورش میں براہ راست پڑے بغیر معاشی لحاظ سے طاقتور رہنے اور غلبہ بنائے رکھنا چاہتا ہے۔
اس کی مثال عراق میں حالیہ جاری رہنے والی کشیدگی ہے عراق میں بغداد سے لے کر کربلا، نجف، الناصریہ اور بصرہ، تمام بڑے شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ سب سے بڑا احتجاج بغداد کے التحریر سکوائر میں ہوا ہے۔ پہلی مرتبہ مظاہرین نے بغداد انٹرنیشنل ائیرپورٹ جانے والی سڑکیں احتجاج کے باعث بند کردی ہیں اور ان کا مقصد ہے کہ حکومت کے نمائندوں کو ملک سے بھاگنے نہ دینا ہے۔ یہ احتجاج اور مظاہرے، کرپشن اور طاقتور مسلح گروہ کے خلاف ہیں۔ ان گروہوں میں سب سے بڑا لشکر (الحشد الشعبی) ہے۔ جو عراقی ہے لیکن اس کی تمام تربیت اور وابستگی ایران کی حکومت کے ساتھ ہے۔ الحشد کے رہنما نے مظاہرین کو امریکہ اور اسرائیل کے ایجنٹ قرار دیا تو ایران مخالف مظاہرے اور نعرے بھی عمل میں آنے لگے ہیں۔ عراق نے تمام سکیورٹی اہلکاروں کی چھٹیاں منسوخ کردی ہیں۔
عوام کو پرامن رہنے کا کہاجارہا ہے۔ پاکستان میں موجود عراقی سفارتخانے حالیہ کشیدگی کے باعث پاکستانی زائرین کو اربعین کیلئے ویزے جاری کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ہزاروں پاکستانیوں نے ہوٹلوں اور جہازوں کی ٹکٹیں بک کروارکھی ہیں جس سے ان کے مالی نقصان کا خدشہ ہے۔ مظاہروں میں اب تک چار عراقی ہلاک اور تین سو کے قریب زخمی ہوچکے ہیں۔ سن 2017 اور 2018 میں بھی بغداد، نجف، بصرہ اور کربلامیں مظاہرے ہوئے تھے جس میں مظاہرین نے عراقی حکومت کے ساتھ ساتھ ایرانی قونصل خانوں کے سامنے دھرنے دئے تھے لیکن حکومت نے اس وقت معاملات کو قابو کرلیا تھا مگر موجودہ حالات حکومت کے بس سے باہر ہورہے ہیں۔ بہت سے عراقیوں کی رائے ہے کہ کرپٹ مافیہ کو عراقی حکومت پر مسلط کرنے میں ایران اور امریکہ دونوں کا اپنا اپنا کردار ہے۔
عراق تیل بیچنے والا بڑا اور امیر ملک ہے۔ اس میں جاری حالیہ کشیدگی عالمی منڈی میں تیل پیداوار میں کمی اورقیمتوں میں شدید اضافہ کا باعث بن سکتی ہے۔ امریکہ عراق کی تیل پیداوار کا سب سے بڑا گاہک ہے۔ امریکہ کی تیل کی منڈی پر بھی اس کے شدید اثرات اور نقصان کا خدشہ ہے۔ پہلے ہی سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملہ، امریکہ سمیت دیگر ممالک پر شدید اثرانداز ہوا ہے۔ حالانکہ عراق میں جاری کشیدگی سے امریکہ کا شدید نقصان متوقع ہے اور امریکہ کے عراق میں گزشتہ دو سال سے اثر اور مداخلت کم ہونے سے ایران کا اثرورسوخ پہلے ہی کافی حد تک بڑھ چکا ہے جس کا نقصان بھی براہ راست امریکہ کو ہی ہورہا ہے۔ مگر امریکہ پھر بھی ہر قسم کے تنازعہ میں براہ راست پھنسنے اور مداخلت سے گریزاں ہے۔ اور عراق میں موجودہ صورتحال میں امریکہ کی خاموشی اور اس کا عراق کی سیاست سے اظہار لاتعلقی امریکہ کی پوزیشن اور پہلے بیان کردہ حکمت عملی کو واضح کررہی ہے۔
اور امریکہ کی حکمت عملی کی تبدیلی ایک اور مثال سے واضح ہورہی ہے کہ امریکہ کسی ملک کو کسی عمل سے باز و ممنوع رکھنے کیلئے مذمتی بیانات کی بجائے براہ راست تجارتی اور معاشی پابندیوں کی دھمکیاں دینے لگا ہے۔ 2 اکتوبر کو امریکہ وزارت خارجہ نے براہ راست بھارتی نشریاتی ادارے (دی ہندو) کو ایک ای میل انٹرویو میں بھارت کو واضح الفاظ میں دھمکی دی ہے کہ بھارت نے اگر روس سے s-400 میزائل شکن سسٹم خریدنے کی کوئی ڈیل کی تو ممکنہ خدشات کے پیش نظر امریکہ بھارت پر تجارتی اور معاشی پابندیاں لگا سکتا ہے۔ امریکہ نے یہ دھمکی اسی دن دی ہے جس دن بھارتی سیکرٹری خارجہ جے شنکرنے امید ظاہر کی تھی کہ بھارت روس سے s-400 میزائل شکن سسٹم خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے اوروہ کافی حد تک اس ڈیل کے حوالے سے امریکہ کو مطمئن کرلیں گے۔ بھارت شائد یہ امید کررہا تھا کہ وہ امریکہ کو روسی ہتھیار کے بارے میں اسی طرح قائل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا جس طرح چابہار بندرگاہ والے معاملے پر کرلیا تھا۔ اور ایران کے ساتھ اس مشترکہ منصوبے کو پابندیوں سے مستثنی قرار دلوایا تھا۔
اب امریکہ کی بھارت کو اس قسم کی سنگین دھمکی اور پاکستان کو افغان طالبان سے مذاکرات کیلئے تھپکی نہ جانے کن حالات کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ یہ بات تو واضح ہورہی ہے کہ افغانستان میں طالبان کے معاملے کو لے کر واشنگٹن ڈی سی کا رومانس اسلام آباد سے بڑھ رہا ہے۔ اور پاکستان کے وزیر اعظم کی امریکہ دورہ کی واپسی کے بعد افغان طالبان کے ساتھ اسلام آباد میں مذاکرات بحالی کیلئے چھ گھنٹے طویل جاری رہنے والی میٹنگ اس کڑی کا حصہ ہے۔ افغان طالبان کے ساتھ امریکہ کے دوبارہ مذاکرات کروا دینا اور اس عمل کا کامیا ب حل نکل آنا امریکہ اور پاکستان دونوں کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ چنانچہ امریکہ اس وقت پاکستان کو اپنا قریبی اتحادی بنا کر سامنے لا رہا ہے۔ مگر پتہ نہیں کیوں ڈر لگتا ہے کیونکہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔
پاکستان میں امن کو مستحکم کرنے کیلئے افغانستان میں امن ہونا لازم ہے۔ اسی لئے امریکہ اور پاکستان کے مفادات جڑ گئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ اتحاد کب تک قائم رہتا ہے۔ اس کے علاوہ مدتوں امریکہ کی طرف سے پس پشت ڈالے جانے والے ملک یوکرائن کے صدر سے امریکہ کے صدر کی ملاقات، اور عراق میں جاری کشیدگی کے باوجود حصہ نہ بننے سے، ہر قسم کی شورش سے بچنے اور امریکہ کی نئے اتحادی بنانے والی حکمت عملی کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ جس سے بہت سے سوالات جنم لیا ہے کہ کیا امریکہ رخ بدل رہا ہے۔۔