امریکہ نے افغانستان میں آخر کیا پایا اور کیا کھویا ہے۔ ایک اسامہ بن لادن اور ایک ملا عمر کے پیچھے 19 سال خوار ہونے والے امریکہ جس نے نیٹو سمیت کئی ممالک کو اس آگ میں دھکیلا۔ جس میں پاکستان بھی بالواسطہ حصہ بنا رہا اور انیس سال اپنے ساتھ اس دلدل میں پھنسائے رکھا۔ امریکہ نے جب افغانستان سے تھک ہار کر بغیر کسی نتیجہ کے کئی گنا پیسہ لگا کر اور اپنی فوجوں کا ناقابل تلافی نقصان کرکے افغانستان سے نکلنا چاہا۔ تو امریکہ اور افغان طالبان کے مابین اعلیٰ سطح پر مذاکرات عمل میں لائے جانے لگے۔ مگر تب یکدم چین کے پڑوس میں مقبوضہ کشمیر کا معاملہ گڑبڑا گیا۔ جس میں پاکستان اور چین کا براہ راست تعلق ہے۔
کشمیر کا معاملہ بگڑنے سے پاکستان کی سیاست اور دفاع پر گہرا اثر پڑتاہے۔ اس دوران طالبان سے یکدم مذاکرات منسوخ کردیئے جاتے ہیں۔ سیاستدان تو پہلے شاید اپنے کاروبار کو کمزور نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اسلئے حالات کی تبدیلی کے رخ کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ یا پھر آنکھیں بند کئے ہوئے تھے۔ پاکستان کی دفاعی لائن پر کشمیر معاملہ کو لے کر حملہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان کی غیرت کو للکارا جاتاہے۔ اور بھارت کے ذریعہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرکے پاکستان کو ایک بار پھر امریکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتاہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ عین اس ہی وقت کیوں ہوا۔ جب امریکہ افغانستان سے نکلنے کو بالکل تیار تھا۔ پھر اس نے اچانک کروٹ کیوں لی اور یکدم مذاکرات منسوخ کرکے ایک نئی جنگ کرنے کو تیار کیوں ہوگیا۔ یہ سوال اس خطے کے مستقبل کیلئے انتہائی پیچیدہ مسئلہ ہے۔
میرے تجزیہ کے مطابق ایسا کیوں ہورہاہے؟ وجہ یہ ہے کہ امریکہ کا ماضی یہ بتاتا ہے کہ بھارت نے کشمیر میں جو کچھ کیاہے۔ اس کا مطلب صاف یہ ہے کہ وہ بھارت نے نہیں بلکہ خود امریکہ نے بھارت کو اپنا آشیرباد دے کر کروایاہے۔ تاکہ پاکستان LOC پر مستقل طورپر بھارت کے ساتھ کشیدگی اور جھڑپوں میں الجھا رہے۔ اور چین ذہنی طورپر تھوڑا بہت پریشان ہوجائے۔ جس کے اثرات اس کی معیشت پر بھی آئیں گے۔ ان حالات میں پاکستان ایک بند گلی میں داخل ہوجائے گا۔ اور مڑ کر پھر امریکہ کی طرف ہی آئے گا۔ اور امریکہ اسے کشمیر کی ثالثی کا لالی پاپ دے کر اپنی گیم کو آگے بڑھائے گا۔ جب پاکستان پھر سے امریکہ کی ثالثی کے لالی پاپ میں مسحور ہوجائے گا۔ تو اس کو ایران کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ کیونکہ اس وقت امریکہ اور ایران دنیا کی سب سے خطرناک ترین جنگ لڑنے کے موڈ میں ہیں۔
امریکہ کے اس خطے میں دو اہم ٹارگٹ ہیں۔ ایک چین جس کو وہ پریشان کرکے اس کی معیشت کو ڈگمگانا چاہتاہے۔ سی پیک کو متاثر کرنا چاہتاہے۔ اور دوسرا ایران جس سے وہ براہ راست جنگ کرنے سے پہلے سعودی عرب، کویت اور سعودی عرب کے دیگر حمائتیوں بشمول پاکستان کے ذریعہ بلا واسطہ جنگ چھیڑنا چاہتاہے۔ کیونکہ پاکستان اس خطہ میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ لہذا اس مقصد کو جو واضح ہورہاہے۔ وہ یہ ہے کہ پاکستان کو امریکہ کبھی بھی مکمل استحکام میں نہیں آنے دینا چاہتا۔ آپ خود ملاحظہ فرمائیے۔ کہ امریکہ کے افغانستان سے مستقل طورپر نہ نکلنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ کو وہ ہوائی اڈے بھی خالی کرنا پڑیں گے۔ جنہیں اس نے ایران کے خلاف مستقبل میں استعمال کرنا ہے۔ کیونکہ پاکستان ماضی کی طرح اپنے ہوائی اڈے امریکہ کو دینے کی غلطی قطعاً نہیں دھرائے گا۔ اس کے علاوہ دوسری بڑی وجہ اگر امریکی فوج افغانستان سے مکمل طورپر نکل جائے۔ اسطرح پاکستان کی مغربی سرحدوں پر مکمل امن ہونے کے حد درجہ امکانات ہیں۔
تیسری بڑی وجہ افغانستان میں امن ہونے سے پاکستان کو اپنی فوج کی بڑی تعداد کو افغانستان بارڈر سے واپس بلا کر سعودی عرب اور ایران ممکنہ جنگ کے تناظر میں ایران بارڈر پر تعینات کردے گا۔ تاکہ پاکستان کا اہم علاقہ بلوچستان کسی بھی طرح کی بیرونی جارحیت سے محفوظ رہے اور سی پیک اور گوادر کو ہر ممکن تحفظ فراہم کیا جائے۔ انہیں مقاصد کیلئے امریکہ افغانستان سے فوج نکالنے کیلئے کنی کترا رہاہے۔ اور چاہتاہے کہ افغانستان میں کشیدگی بنی رہے تاکہ پاکستان بھی کشمکش کا شکار رہے۔ اورافغانستان بارڈر سے فوج پیچھے ہٹا کر ایران بارڈر پر تعینات نہ کرسکے۔ اور دوسری طرف بھارت کشمیر کا شوشہ چھوڑ کر پاکستان کو ایک نئے امتحان میں ڈال رہاہے۔ امریکہ پاکستان کو ہر لحاظ سے مجبور کرنا چاہتاہے۔ وہ کشمیر میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کا لالی پاپ بھی دیتا رہے گا اور دوسری جانب بھارت کی پشت پناہی بھی جاری رکھے گا۔ وہ پاکستان کو ایران کو خلاف جنگ کیلئے بھی استعمال کرنے کی کوشش کرے گا۔ پاکستان کے تینوں بارڈر ہائی الرٹ رہیں گے۔ امریکہ اس طرح تین چیزوں کومکمل ٹارگٹ کررہاہے۔ پاکستان میں عدم توازن سے سی پیک اور ون روڈ ون بیلٹ کو متنازعہ کرنا چاہتا ہے۔ سعودی عرب بھی سی پیک کا حصہ دار بن چکاہے۔ جس کیلئے سی پیک سے زیادہ اہم امریکہ کا اتحادی بنے رہنا ہے۔ چنانچہ وہ کسی بھی وقت پاکستان کو دھوکہ دے سکتا ہے۔ امریکہ چین کی معیشت کو گرانے، ایران پر حملہ کرنے اور پاکستان کو عدم توازن میں لانے کیلئے یہ کھیل کھیل رہاہے۔ تاکہ مستقبل میں بھی امریکہ سپر پاور بنا رہے۔
پاکستان کو LOC سمیت افغانستان بارڈر پر الجھایا جارہاہے۔ اور سعودی عرب پر پریشر بنایا جارہاہے۔ کہ وہ تیل تنصیبات پر حملہ کا الزام ایران پر لگائے اور ایران کے خلاف جنگ میں پہل کرے۔ سعودی عرب نے ایران پر حملہ کیا تو کویت سعودی عرب کی مدد کرے گا۔ جہاں پہلے ہی امریکی فوج تعینات ہے۔ اور سعودی عرب کی مدد اور ایران کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کیلئے امریکہ سمندر کے راستے گھسنے کی کوشش کرتے ہوئے گہرے پانیوں سے حملہ آور ہونے کی کوشش کرے گا۔ یورپی ممالک جو آبنائے ہنس کی بندرگاہ بند ہونے پر پہلے ہی ایران مخالف ہوچکے ہیں وہ بھی امریکہ کا ساتھ دیں گے۔ اور ممکن ہے کہ امریکہ پاکستان کو کشمیر کے معاملہ میں الجھا کر ثالثی کے میدان میں اتر آئے تاکہ اس ساری صورتحال کو پاکستان کی نظروں سے اوجھل رکھا جائے۔ اور ممکن ہے کہ کشمیر پر سے کرفیو اٹھا لیا جائے اور شاید سپریم کورٹ آف انڈیا کو مودی مخالف فیصلہ بھی سنانا پڑے۔
اس جنگ سے چین اور پاکستان براہ راست متاثر ہوں گے۔ سی پیک کا عمل معدوم ہونے کا خدشہ ہے۔ مگر ایسا ہونے سے یہ ممالک ایک دوسرے کے اور بھی قریب ہوجائیں گے اور کسی مشترکہ حکمت عملی پر غور کریں گے۔ روس اس سارے عمل سے بالواسطہ متاثر ہوگا۔ وہ بھی اپنی نئی پالیسی تشکیل دے گا۔ ہو سکتاہے کہ وہ اس عمل میں براہ راست مداخلت بھی کرے۔ کیونکہ کہ اگر امریکہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوگیا تو روس کی کئی دہائیوں کی محنت بے سود ہوجائے گی۔ اور اس خطے میں روس کے دوبارہ بڑھتے اثرو رسوخ کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ بھارت اس سارے معاملے میں کٹ پتلی کا کردار ادا کرتار ہے گا۔ LOC اور بلوچستان بارڈر سے پاکستان کو ڈسٹرب کرے گا۔ عین ممکن ہے کہ بھارت بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کی فنڈنگ کرے جس سے وہ دوبارہ سر اٹھائیں۔ دنیا کے موجودہ حالات میں یہ دھندلائی ہوئی تصویر ابھی تک غیر واضح ہے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ واضح ہوتی جائے گی۔ امریکہ خود کو سپر پاور برقرار رکھنے کیلئے اس خطہ پر مکمل کنٹرول چاہتاہے۔ اسلئے روس اور چین کو گیم سے آؤٹ کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرے گا۔ امریکہ کی پشت پناہی اسرائیل کررہاہے۔ اور ایک گریٹ گیم کا آغاز ہوچکاہے۔ جو دنیا کا نقشہ پھر سے تبدیل کردے گی۔