امریکا سپر پاور کیوں ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر ملک کا سیاسی شعور رکھنے والا باشندہ اپنی زندگی میں ایک بار ضرور سوچتا ہے۔ ایک سادہ سا سوال کہ کوئی بھی ملک سپر پاور کیسے بنتا ہے ایسی کونسی چیزیں درکار ہوتی ہیں جو اس ملک کو سپر پاور بناتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ سپر پاور ہونے کے لئے ایک بڑی اور طاقتور فوج چاہیئے ہوتی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ جدید اسلحہ کسی ملک کے سپر پاور ہونے کے لئے ضروری ہے۔
پرانی سٹڈی اپروچ یہ کہتی ہے کہ سپر پاور ملک کی ٹیریٹری یعنی علاقہ بڑا ہوتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ کسی بھی ملک کے سپر پاور ہونے کے لئے اس کا معاشی طور پر مضبوط ترین ہونا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ کوئی اسے جسٹس سسٹم، اور رول آف لاء سے جوڑتا ہے۔ مگر یہ سب عوامل تو نتائج ہیں آغاز نہیں۔ تو پھر ایسا کیا ہے جو کسی بھی ملک کے سپر پاور ہونے کا آغاز ہوتا ہے۔ جس سے یہ سب عناصر حاصل ہوتے ہیں اور وہ خود کو سپر پاور گھوشت کرلیتا ہے۔
کچھ لوگ اس سوال کا جواب تاریخ میں ڈھونڈتے ہیں۔ کچھ حال کے کارناموں کو کنگھالتے ہیں اور کچھ مستقبل کی پیشنگوئیوں کو جواب تصور کرلیتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان تینوں طریقوں سے مشترکہ طور پر ایک جواب سامنے ضرور آتا ہے وہ ہے کسی بھی ملک کی روایات۔ اب اس میں بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ روایات تو ہر ملک و قوم کی ہوتی ہیں تو سپر پاور یا ترقی یافتہ ہونے کے لئے کونسی روایات درکار ہوتی ہیں۔
اس سب کا جواب بہت سادہ ہے۔ روایات تو ہر ملک و قوم کی ہیں مگر وہ ہی ملک ترقی کی سیڑھی چڑھے ہیں جنہوں نے اپنی روایات کو وقت کے تقاضوں کے مطابق تراشا اور بہتر کیا۔ پھر اس کو اپنے ملک میں عام کیا۔ اس سے اپنی ڈائریکشن وضع کی۔ پھر انہی کو قوانین کی شکل دی اس قانون کا پہرہ دیا اور رفتہ رفتہ ترقی کی منازل طے کرنے لگے۔ یہاں سب سے زیادہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قانون تو ہر ملک میں ہوتا ہے مگر اس کے عمل درآمد میں بہت سے ممالک پیچھے ہیں جس کی وجہ صاف ہے کہ ان ممالک میں یا تو روایات کو وقت کے تقاضوں کے مطابق جدید دنیا سے ہم آہنگ یا آپ گریڈ نہیں کیا گیا یا پھر زیادہ تر ممالک میں وہ قوانین اڈاپٹڈ یعنی لے پالک ہیں۔
آپ پوری دنیا کا نقشہ دیکھیں اور اس میں سے تھرڈ ورلڈ کنٹریز کا بغور مطالعہ کریں تو ان میں سے 80فیصد ممالک وہ ہیں جن میں لے پالک قانون یعنی دیگر ممالک سے لیا گیا قانون ہے ان کا اپنا نہیں ہے۔ اور لے پالک قانون ہونے کی وجہ سے ان ممالک کے لوگوں کو قانون سے خاص رغبت یا لگاو نہیں ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان ممالک کی روایات کچھ اور ہوتی ہیں اور قوانین کچھ اور۔ جس سے لوگوں میں اس قانون سے متعلق دلچسپی یا اپنائیت کم ہوتی ہے۔ جبکہ ان کی اپنی روایات سے ان کی ایک خاص لگن ہوتی ہے، ادب ہوتا ہے، جذبات کا لگاؤ ہوتا ہے۔ وہ اپنی روایات کا پالن کرنا دھرم سمجھتے ہیں اور قوانین کو فار گرانٹڈ لیتے ہیں۔ جس سے وہ قوم کنفیوز رہتی ہے ان کا فوکس خراب ہوتا ہے، سمت غلط ہوجاتی ہے۔ بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے اور پھر وہ ملک اپنے آپ میں ہی ایک جنگ لڑنے لگتا ہے۔
آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں برطانیہ نے آدھی سے زائد دنیا پر حکومت کی۔ جہاں جہاں حکومت کی وہاں اپنا قانون چھوڑدیا۔ جبکہ برطانیہ کا اپنا آئین کسٹمز اینڈ کنوینشنز پر مبنی ہے۔ لکھا ہوا نہیں ہے۔ جن ممالک نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی اور انہی کا قانون خود پر لاگو رکھا آج کی تاریخ میں اکثریت میں وہی ممالک تھرڈ ورلڈ کنٹریز ہیں اور جنہوں نے آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنی روایات وضع کرتے ہوئے قانون بنایا وہ ترقی یافتہ ہیں ماسوائے چند ایک کے۔
اب اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنی روایات کو جسیے کے تیسے قانون بنا کر لاگو کردو۔ بلکہ اس کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالو، یہی تو اصل کلیہ ہے کہ جو ٹھیک نہیں اس کو بہتر کرو جو فضول ہیں اس کو ختم کرو اور آگے بڑھو۔ یورپ اس کی بہترین مثال ہے۔ انہوں نے پہلے پوپ کلچر کا خاتمہ کیا، بادشاہت کے آگے سر تسلیم خم کیا ترقی کی مگر پھر وقت کے تقاضوں کے مطابق بادشاہت کو خیر باد کہتے ہوئے محدود کردیا۔ سول نظام حکومت لائے اور مزید ترقی کی۔
انسان کے خمیر میں ہے کہ وہ تبدیلی پسند ہے۔ جس طرح انسان پہلے کیڑے مکوڑوں جیسی زندگی جیتا تھا۔ پھر وہی انسان ارتقا یعنی ایوولیوشن پراسس سے گزرا اور آج پوری کائنات پر چھا گیا۔ غاروں سے محلوں، گھوڑوں سے گاڑیوں اور زمین سے چاند تک گیا۔ کیونکہ اس نے وقت کے ساتھ خود کو بہتر کیا ہر خطہ ہر موسم کے لحاظ سے خو د کو ڈھالنا سیکھا۔ ورنہ انسان کبھی کمیونٹیز نہ بنا پاتا، زبان نہ ایجاد کرتا اور اشرف المخلوقات ہونے کی بجائے عام جانور ہی رہتا۔ اسے سوشل اینیمل یعنی سماجی جانور کیوں کہا گیا۔ اسی لیئے کہ وہ روایات میں بندھا جس سے وہ خاندان، قبیلے اور پھر قوموں میں ڈھلا۔ جنہوں نے کوئی روایات نہ بنائی اور اس میں وقت کے تقاضوں کے مطابق جدت نہ لائے وہ ختم ہوگئے۔ جیسا کہ نینڈرتھل اور ڈینی سووا انسان۔
اب موضوع پر واپس آتے ہیں کہ امریکا سپر پاور کیوں ہے اسکے پیچھے بھی اسکی روایات ہیں جو باقی دنیا سے منفرد ہیں۔ مگر حیران کن بات یہ ہے کہ چاہے روایات ہی اسکے سپر پاور ہونے کی بڑی وجہ ہیں مگر امریکا تو ریڈ انڈین لوگوں کا دیس تھا اور جو لوگ آج امریکا پر حکومت کررہے ہیں وہ ریڈ انڈین نہیں بلکہ اور ہیں اور انکی روایات بھی خالصتاً امریکی خطے کی نہیں ہیں۔ تو یہ کہانی کیسے آگے بڑھی کہ پہلے اس خطے میں کہیں اور خطے سے آئے ہوئے لوگ آباد ہوئے۔ ریڈ انڈینز کا پتہ فاش کیا۔ اس خطے کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لی، سترہوں صدی میں امریکا کو آزاد کروایا۔ اور پھر دنیا کا سب سے طاقتور ملک کیسے بنایا؟
جاری ہے۔۔