ملک پاکستان اس وقت تاریخی بحرانوں کا سامنہ کر رہا ہے۔ معیشت کی صورتحال خستہ حال بحری جہاز کی طرح ہے جو تیز طوفانی سمندروں میں غوطے کھارہا ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے ہمیں چاروں طرف سے گھیرا جارہا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ہمارے ناتواں کندھوں پر ہے جس پر ہم نے مر مٹنے تک کو تیار ہیں۔ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا دور چل رہا ہے تاکہ خطہ میں امن ہوسکے۔
اقوام متحدہ میں ناموس رسالتﷺ اور اسلاموفوبیا کے خلاف سب سے پہلے کھڑے ہونے والے سپاہی ہم ہیں۔ ساری دنیا ہمیں نئے زاویہ سے دیکھ رہی ہے۔ یہ زاویہ اچھا ہے یا برا اس کا تو وقت ہی بتائے گا۔ مہنگائی، افراط زر میں کمی، کاروباری ماحول کی گھٹن، چاروں طرف سے جنگ کا خطرہ اور ملک میں دہشت گردی کی جنگ غرض کے ہم ہر طرح کے چیف مسائل میں گھرے ہیں۔ اس وقت مجھے ملک پاکستان کی صورتحال دیکھ کر ٹیپو سلطان کی ریاست میسور یاد آتی ہے کہ وہ دوربھی اسی طرح مشکلات کا شکار تھا۔ انگریز ہر طرح کی جارہانہ کاروائی کررہے تھے۔ ریاست میں جاری جنگ کی وجہ سے عوام فاقوں پر تھی۔
ریاست کا نظام درہم برہم ہوچلا تھا۔ مگر عوام اور قائدین میں پھر بھی جذبہ موجود تھا۔ وہ غلامی کی زندگی نہیں چاہتے تھے۔ ہر طرح کے حالات سے لڑنے اور کٹ مرنے کو تیار تھے۔ اور پھر ہوا بھی ایسے ہی کہ انگریز میسوری فوجوں اور جذبہ سے ہر میدان سے پسپا ہوتے گئے۔ جہاں سے بھی وہ ریاست پر حملہ کرتے ٹیپو سلطان کا قہر ان پر قیامت بن کر برستا۔ انگریز میسور اور ٹیپو سلطان کے نام سے کانپنے لگے۔ میسور انگریزوں کے لئے ناقابل فتح ہوچکا تھا۔
انگریزوں اور میسور کے درمیان تین جنگیں اور پھر جنگ بندیوں کے معاہدے بھی ہوئے۔ ہر دفعہ میسور فاتح رہامگر چوتھی اور آخری جنگ میں انگریز فاتح رہے۔ اس آخری جنگ میں میسور کی شکست فاش کی وجہ اپنے ہی وزیروں اور افسر شاہی کی غداری تھی۔ بات چلتے چلتے کہاں تک آگئی۔ مگر پاکستان کے موجودہ حالات دیکھ کر مجھے میسور کی ریاست یا د آگئی۔ مجھے آج انتہائی افسوس اور ندامت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان بھی اسی طرح کے میر جعفروں اور میر صادقوں سے بھر اپڑا ہے جن کی وجہ سے میسور کی ریاست کو شکست فاش ہوئی اور اس کا انجام انتہائی درد ناک ہوا۔
پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ میں تعینات مندوب ملیحہ لودھی کے متعلق چشم کشا انکشافات نے میر صادق کی یاد تازہ کردی۔ ملیحہ لودھی کے ہٹائے جانے کی جو وجہ سامنے آرہی ہے اس کے مطابق اقوام متحدہ کا وہ خط تھاجو اس نے انتہائی رازداری سے بھارتی لابی کو دیا تھا۔
پاکستان نے حافظ سعید کے منجمند اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس میں سے جائز رقم نکالنے کی اقوام متحدہ سے درخواست کی تھی جو اقوام متحدہ نے کافی غور و حوض کے بعد جائز سمجھ کر قبول کرتے حافظ سعید کو ایک حد تک رقم نکلوانے کی اجازت دے دی تاکہ وہ اپنے روزمرہ کے اخراجات چلاسکیں۔ یہ تمام معلومات ایک خط کی صورت میں اقوام متحدہ نے پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کے حوالے کر دیں۔ ملیحہ لودھی نے یہ خط ایک مڈل مین کے ذریعہ بھارتی لابی کو لیک آؤٹ کردیا۔ ستائیس ستمبر کو عمران خان کی تقریر تھی جبکہ پچیس ستمبر کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو اس وقت شدید حیرت کا جھٹکا لگاجن بھارتی صحافی نے ان سے یہ سوال پوچھا کہ۔۔ آپ لوگ کشمیر سے متعلق بات کرنے آئے ہیں یا اپنے پالے ہوئے دہشتگردوں کے منجمند اثاثے بحال کروانے۔۔ وزیر خارجہ نے عقلمندی سے بات کو وزیراعظم تک پہنچادیا۔ وزیر اعظم نے ٹیم کے ہر بندے پر کڑی نظر رکھنے کا حکم دیا۔ پھر انتہائی کم عرصے میں اس بات کا سراغ لگایاگیا اور عثمان ٹیپو نامی شخص کی حرکات اور بھارتی لابی سے ملاقاتوں کے شواہد حاصل کئے گئے۔
پاکستانی ایجنسی نے اس شخص کو فوراً حراست میں لیا اور پوچھ گچھ کرنے پر وہ فوراً وعدہ معاف گواہ بننے کو تیار ہوگیا۔ اس تفتیش کے دوران عثمان ٹیپو نے ایسے ایسے انکشافات کئے کہ بڑے بڑے سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اس نے انکشاف کیا کہ اقوام متحدہ کا پاکستان کو لکھا گیا خفیہ خط بھارتی لابی کو واٹس ایپ کرنے کا ٹاسک ملیحہ لودھی نے دیا تھا۔ اور تاکید کی تھی کہ وزیر اعظم کی تقریر کے عین دو دن پہلے اسکو ہر بھارتی صحافی کو واٹس ایپ کرنا ہے۔ اسکے علاوہ بھی پاکستان کے کئی اہم دستاویزات وہ اپنی باس ملیحہ لودھی کے حکم پر کئی بار بھارتی ایجنٹس اور صحافیوں کو بھیج چکا ہے۔ فوری طور پر صورتحال کو وزیر اعظم کے علم میں لایا گیا جس پر انہوں نے فوری ایکشن لیتے ہوئے پاکستان پہنچتے ہی ملیحہ لودھی کو اس کے عہدے سے برطرف کرنے کا حکم صادر کیا۔ ملیحہ لودھی کے متعلق اور اس کی بیٹی کے رشتہ داروں کے متعلق بھی حیران کن اور پریشان کن حقائق سامنے آئے ہیں۔ ملیحہ لودھی جیسی ہائی رینکڈ افسر سے متعلق ان حقائق نے میر جعفر و صادق کی یاد شدت سے تازہ کر دی ہے۔
اسکے علاوہ آرمی چیف اور تاجروں کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بارے میں بہت چہ مگوئیاں ہورہی تھی۔ اس میٹنگ کی اندرونی کہانی ہے کہ اس میں بڑے بڑے بزنس مین اور سٹیک ہولڈرز موجود تھے۔ حکومت کی طرف سے اس میٹنگ میں حماد اظہر، شبر زیدی، اور حفیظ شیخ موجود تھے۔ اس میٹنگ میں بزنس مینوں نے آرمی چیف سے شکایت کی کہ نیب کی پالیسیاں کاروباری ماحول کو بہت تنگ کررہی ہیں۔ جس پر آرمی چیف نے کہا کہ ہم ایسا کرتے کہ بزمنس مینوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنوا دیتے ہیں جس پر کسی پر الزام آئے تو وہ کمیٹی اس کی تحقیقات کرے اور فیصلہ دے کہ نیب کو اس پر کاروائی کرنی چاہیئے یا نہیں۔ اس پر اتفاق کرلیا گیا۔
اس میٹنگ میں سمگلنگ سے متعلق بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا۔ جس پر آرمی چیف نے افغانستان والی سائیڈ پر جلد باڑ لگائے جانے کے کام کہا جس سے افغانستان والی سایئڈ سے سمگلنگ کا خاتمہ ہوجائے گا۔ مگر بلوچستان کی طرف ان کو فیکٹریاں لگانے کا کہا تاکہ ایرانی بلوچستان والی سائیڈ پر لوگوں کو روزگار مل سکے اور سمگلنگ کا خاتمہ ممکن ہو۔ اسکے علاوہ بزنس مینوں سے کہا کہ آپ لوگ ٹیکسٹائل کا رونا روتے ہیں اسکے علاوہ کوئی اور بزنس نہیں رہ گیا جس پر انویسٹ کیا جائے۔ ہونا تو چاہیے کہ آپ ملک کی ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے ایسی چیزوں پر انویسٹ کریں جو کہ آج کا دنیا کی ضرورت ہیں۔ لیکن آپ لوگ 50 سال سے اس میں پھنسے ہیں اور باہر آنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ بلوچستان میں ریکوڈک کا منصوبہ ہے اس پر انویسٹ کریں۔ بلوچستان اور کے پی کے میں کان کنی پر انویسٹ کریں۔ سکیورٹی اور سرمائے کا تحفظ چاہیئے تو وہ آپ کو ہم دیں گے۔ اس کی میں آپ کو یقین دہانی کرواتا ہوں۔ لیکن آپ لوگ اکانومی کو جمود کا شکار کرکے بیٹھے ہیں۔ اسکے دیگر بزنس مینوں نے اپنے مستقبل کی لائحہ عمل کا بتایا جس پر کابینہ کے ممبران نے انہیں ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
مگر میرا یہ سب بتانے کا مقصد ہے کہ ان بزنس مینوں نے بھی غداری کی حدوں کو چھونے میں کسر نہیں چھوڑی وہ ئی کہ اس میٹنگ میں حفیظ شیخ نے ان بزنس مینوں نے ملک کے ساتھ فراڈ اور بد نیتی کا بتایا کہ چین سے ہمیں رپورٹ ملی ہے کہ پاکستانی بزنس مینوں کے ٹوٹل 12 بلین ڈالر کے امپورٹس آرڈر ہیں جبکہ پاکستان کے آفیشل فگرز جو ان بزنس مینوں نے ریکارڈ کروائے ہیں وہ صرف 6 بلین ڈالر کے نکلے ہیں۔ یعنی 6 بلین ڈالر کی انڈر انوائسنگ کی گئی اور اس پیسے کو پھر انگلینڈ، سوئزرلینڈ اور دبئی اپنے غیر ملکی اکاوئنٹس میں بھیجا گیا۔ آپ لوگ دو نمبریاں لگاتے ہیں جب نیب پوچھتی ہے تو کہتے ہیں کہ نیب ہمیں ڈرا رہی ہے۔ آپ یہی پیسہ ریکارڈ میں لائیں اور پاکستان میں انویسٹ کریں تاکہ پاکستان کا فائدہ ہو۔
اسکے علاوہ طویل باتیں ہیں جن کا ذکر اس تحریر میں ممکن نہیں۔ اس میٹنگ میں کہیں بھی ٹیکسز کے متعلق کوئی بات نہیں کی گئی۔ مگر سوچنے اور غور کرنے والی بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہر پیمانے پر کرپشن اور غداری ہو رہی ہے۔ بزنس مینوں کا یوں ریکارڈ چھپانا اور پاکستان کی بجائے کہیں اور انویسٹ کرنا پاکستان کہ ساتھ موجودہ حالات میں غداری نہیں تو اور کیا ہے۔ اس وقت پاکستان کو ان کی ضرورت ہے مگر یہ اپنے مفادات کی خاطر پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اور ملیحہ لودھی جیسے افسر پاکستان کو بیچ رہے ہیں۔ دکھانے کو یہ سب خود کو پاکستان کا محسن ظاہر کرتے ہیں۔ مگر ان کی بغل میں چھری اور منہ میں رام رام ہے۔ خدارا۔ اپنے ضمیر کو مردہ، مت کریں پاکستان کو اس طرح نہ لوٹیں نہ بیچیں ورنہ ہماری عزت کا جنازہ پوری دنیا اپنے کندھوں پر بھی نہ اٹھائے گی اور ہم کہیں بیا بانوں میں پڑے گل سڑ رہے ہوں گے۔