اس وقت دنیا کی بڑی طاقتوں کا رخ اور ان کے تھنک ٹینکس کا رحجان گریٹ گیم کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ گریٹ گیم کے پہلے حصہ میں وسطی ایشیا اور خلیجی ممالک میں شورش پیدا ہوچکی ہے۔ سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملہ، بھارت اور پاکستان کے مابین کشمیر کا مسئلہ اور افغان طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات ختم ہونا ایسے مسائل ہیں جو ان دیکھی قوتوں کی بچھائی ہوئی بساط اور گیم کا حصہ ہیں۔ اگر دنیا کو درپیش ان مسائل کی کڑیاں آپس میں ملائی جائیں تو دھندلائی ہوئی تصویر واضح ہونے لگتی ہے اور حقیقتوں کا پردہ چاک ہونے لگتا ہے۔ میرے کالم (گریٹ گیم کا آغاز) میں ایشیا میں بڑھتی ہوئی امریکہ کی مداخلت، اس کے مفادات اور اس کے گیم پلان پر تفصیل سے تجزیہ کیا گیا ہے۔
سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملہ حوثی باغیوں نے کیا اور اس کی ذمہ داری بھی لی ہے مگر سوچنا یہ ہے کہ اس کی حملہ کی ٹائمنگ بے حدخطرناک ہے۔ سعودی عرب امریکہ کا اتحادی اور ایران کا مخالف ہے۔ ایران اور امریکہ کے تعلقات بھی انتہائی کشیدہ ہوچکے ہیں۔ امریکہ ایران کو دنیا کا سب سے بڑا خطرہ اور دہشت گردقرار دے رہا ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بارہا ایران مخالف بیانات دے رہا ہیں اور ایران پر ہر ممکن اقتصادی اور جغرافیائی پابندیاں عائد کررہا ہے۔ اس صورتحال میں سعودی عرب اور امریکہ کا ایران پر حملہ کا الزام لگانا ایسے ہے جیسے جلتے ہوئے کوئلوں کو ہوا دینا۔ ایران بھی اس حملہ کی تردید کرچکا ہے اور امریکہ مخالف موقف سے ذرہ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ مگر امریکہ اور اس کے اتحادی ایران کو قصور وار ٹھہرانے میں کامیاب ہورہے ہیں۔
ایران بھی آبنائے ہرمز کی بندگاہ پر پابندیاں قائم کیئے ہوئے ہے جس سے برطانیہ سمیت دیگریورپی ممالک بھی ایران مخالف ہوکر اس گیم کا حصہ بن رہے ہیں۔ اس دوران حوثی باغیوں کی سعودی تیل تنصیبات پر حملہ کی ذمہ داری قبول کرنابہت سے سوالات اور خدشات کو جنم دے رہا ہے کہ ان باغیوں کی طاقت اتنی کیسے ہوگئی اور یہ کہ اس طرح کا شدید اور حساس قسم کا حملہ کسی طاقتور ایجنسی کی مدد کے بغیر ممکن نظر نہیں آتا۔ اسی حملے کو جواز بنا کر اور مستقبل کے خدشات کا سہارہ لے کر امریکہ اپنی فوج سعودی عرب میں بھیج رہا ہے۔ اسلام کے ظہور کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا کہ جب کوئی غیر مسلم فوج باقاعدہ معاہدہ اور مسلم حکمرانوں کی رضامندی سے عرب کی سرزمین پر تعینات ہوگی۔ جو کہ گریٹ گیم جس کا تذکرہ ہمیں کتابوں میں ملتا ہے اس کی اہم دلیل اور نشانی ہے۔ جو کہ انتہائی خطرناک علامت ہے۔ سعودی عرب امریکہ کا اتحادی اور معاشی پارٹنر ہونے کے باعث امریکہ کے اس اقدام کو نہ نہیں کہہ سکتا۔ امریکہ سعودی عرب کے ذریعہ ایران سے جنگ لڑنے کے راستے ہموار کررہا ہے۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حالات کا رخ کس طرف ہے۔ اسرائیل امریکہ کی پشت پناہی کررہا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے اسرائیل اپنے ون ورلڈ آرڈر کے ایجنڈہ کو رفتہ رفتہ امریکہ کے ذریعہ سے پورا کررہا ہے۔ اور حالات کو اس نہج تک لے آیا ہے جس سے سعودی عرب سے عرب ایران جنگ کا آغاز ہوگا۔ اگر مسلم ممالک نے سعودی عرب اور ایران کی کشیدگی کو ختم کرنے کی کوشش نہ کی اور اس کے بعد جنگ شروع ہوئی اور اس جنگ میں شمولیت نہ کی تو سعودی عرب رفتہ رفتہ عراق اور افغانستان کی طرح امریکہ اور اسرائیل کے براہ راست اثر تلے آجائے گا۔ اور سعودی عرب کے حکمران کٹھ پتلی کی صورت اختیار کرلیں گے۔ اور اگر مسلم ممالک کی غیرت جاگی اور اپنے اپنے مفادات سے نکل کر میدان میں آگئے تو یہ سارا معاملہ گریٹ وار کی طرف چلا جائے گا۔
پاکستان دنیا کی واحد مسلم اٹامک پاور ہے جو اس وقت مختلف مسائل سے دوچار ہے اور ان سے نکلنے کیلئے ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ اس وقت ایک نئے دور کا آغاز کررہا ہے جو 9/11اور عرب اسرائیل جنگ سے بھی زیادہ بھیانک ہوگا۔ امریکہ اس میں بھی دوہری پالیسی کھیلتا رہے گا پاکستان کو ثالثی کا لالی پاپ دیتا رہے گااورپس پشت بھارت کو سپورٹ کرتا رہے گا۔ اسرائیل اور امریکہ بھارت کی اکانومی کو بڑھاوا دیتے رہیں گے۔ پاکستان معاشی حالات کی دگرگوں میں پھسا رہے گا اور حالات ایسے ہی رہے تو عین ممکن ہے بھارت اور پاکستان کے مابین جنگ کا سلسلہ شروع ہوجائے اور غزوہ ہند کی طرف جائے گا۔ چین، روس اور دیگر ایشیائی مماک بھی اس جنگ کی لپیٹ میں آئیں گے۔ ادھر سعودی عرب اور ایران جنگ کا بازار گرم ہوگا۔ ایران کے تمام اتحادی اور تمام بارڈرز RED ZONE میں ہوں گے۔
اس صورتحال میں ایران محض سعودی عرب سے جنگ نہیں لڑے گا بلکہ وہ امریکہ کے خلاف بھی محاظ کھول دے گا۔ اس طرح یورپی ممالک بھی متحرک ہوں گے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس جنگ میں کود پڑیں گے۔ حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ تمام ممالک اس جنگ کو پہلے اپنے اپنے مفادات کی جنگ سمجھیں گے یہ جنگ مذہب اور بقا کی جنگ بن جائے گی۔ اور خدشہ ہے کہ اگر یہ آگ لگی تو یہ جنگ عظیم سوم کی شکل اختیار کر لے گی۔ چین بھی اپنے ہر طرف آگ لگے ہونے کی وجہ سے جنگ میں سرایت کرچکا ہوگا۔ تمام تر اسلحہ امریکہ، اسرائیل اور روس کا خرچ ہوگا جس سے پوری دنیا کی معیشت باضابطہ طور پر ان کے ہاتھ میں ہوگی۔ یورپ پہلے کی طرح تب بھی اتحادی فوجوں کی صورت استعمال ہوگا۔ اس سارے کھیل میں اقوام متحدہ کا کردار خاموش تماشائی سے زیادہ کا نہ ہوگا۔
گریٹ گیم کو لے یہ تجزیہ غلط بھی ہوسکتا ہے اور خدا کرے کے غلط ہی ثابت ہو مگر آپ دنیا کا نقشہ اور حالات کا بغور جائزہ لیں تو آپ کو نقشہ پرکھنچی لائنیں اور موجودہ اور متوقع حالات ساری تصویر کو واضح کردیں گے۔ اسرائیل پوری دنیا میں ون ورلڈ آرڈر قائم کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ کے ڈالر کے پیچھے چھپی آنکھ کی تصویر اس کی نمائندگی کررہی ہے۔ ان سارے موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ایسی بساط بچھ رہی ہے جس کے نتائج اب تک کی انسانی تاریخ کے سب سے زیادہ خطرناک ہوں گے۔
اقوام متحدہ، انسانیت کے خیر خواہ اور امن کا پرچار کرنے والوں کے ان سب حالات کو سمجھنا ہوگا اور اس کی سنگینی سے اور اس طرح کے گھناونے انجام سے بچنے کے لیے ساری دنیا کو واضح حکمت عملی دینا ہوگی۔ کشمیر، ایران، سعودی عرب، فلسطین، شام اور دیگر مسائل جو درینہ مدت سے حل طلب ہیں ان کو بہترین طریقے سے حل کرنا ہوگا۔ امریکہ، بھارت، اور دیگر ممالک کو لگام دینا ہوگی۔ ان کی دوسرے ممالک میں مداخلت ختم کرنا ہوگی۔ ورنہ جس گریٹ گیم کا آغاز کچھ ممالک نے مذہبی جنون یا طاقت کے نشے میں کیا ہے اس کا انجام اس تجزیہ سے بھی زیادہ بھیانک ہوگا۔