کُچھ عرصہ قبل ہم نے ایک عزیز دوست موصوف کا تزکرہ کیا۔ شومئی قسمت اُن کی نظر سے بھی تحریر گُزر گئی۔ اور ہم پر اُفتادِ موصوف آن پڑی۔ قلم ہمارا شرارت پر آمادہ ہوا اور اُس کا لگان ہماری جیب نے ادا کیا۔ اہلیہ کی سرزنش الگ سننے کو ملی۔ خیر کمان سے نکلا تیر، منہ سے نکلی بات اور قلم سے نکلی تحریر کہاں واپس آتی ہے۔ دیکھیں بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ موصوف تحریر پڑھ کر آگ بگولا ہو گئے۔ پہلے ٹیلیفون پر روایتی مُغلظات سے نوازا۔ ہم بھی اپنی ڈھٹائی کے ہاتھوں مجبور ہیں، ہنس کر ٹالتے رہے، ہم نے اُن کو غالب کے انداز میں پُرسکوں کرنے کی ناتواں کوشش بھی کی۔
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کہ بھی بےمزہ نہ ہوا
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا، لیکن جب مقابل موصوف جیسی شخصیت ہوں تو ہتھیار ڈالنے میں ہی عافیت جانی۔
عموماً رواج ہے کہ میزبان مہمان کو دعوت دیتا ہے۔ میزبان ہی فہرستِ لذّتِ کام و دہن مقرر کرتا ہے۔ اور میزبان ہی اوقاتِ طعام طے کرتا ہے۔ لیکن موصوف ان تکّلُفات کو خاطر میں نہ کبھی لائے اور نہ کبھی لائیں گے۔ انہوں نے خود کو اگلے اتوار کی دعوت شیراز بھی دے ڈالی۔ ساتھ میں بتادیا کہ کم از کم چار سے پانچ انواع کے پکوان ہونگے۔ یہ سُن کر ہم کو اپنی سماعت پر یقین نہ آیا۔ لیکن جب اُنہوں نے دعوت کا مقام بتایا تو کچھ جانا پہچانا لگا۔ پھر ایک بجلی کُوندی وہ تو ہمارے گھر کا پتہ تھا۔ لیکن ہاں کر چُکے تھے اور موصوف کو انکار کرنا مُمکنات میں سے تھا۔
اب اُس بھی بڑا مرحلہ شریکِ حیات کو اِس ناگہانی آفت کا بتانا اور اُن سے تعاون حاصل کرنا تھا۔ ڈرتے ڈرتے پہنچے، ابھی اتوار کا نام لیا ہی تھا۔ پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ جب انہوں نے بتایا کہ اُن کی ہمشیرہ دبئی سے اپنی والدہ ماجدہ کے دولت کدے پر قدم رنجہ فرما رہی ہیں۔ ہم تو اس حال میں تھے کہ ایک طرف شیر اور دوسری جانب گہری کھائی ہے۔ جی کڑا کر کہ جب مژدہ بیان کیا تو خوب ژالہ باری ہوئی۔ پھر ہم نے وہ کیا جس کام میں ہم ماہر ہیں۔ اب آپ سمجھ رہے ہونگے کہ ہم سینہ تان کے کھڑے ہوئے ہونگے اور کہا ہوگا کہ چاہے دنیا اِدھر کی اُدھر ہو جائے موصوف کی دعوت اتوار کو ہی ہوگی۔ تو اپنی سمجھ پر زور نہ دیں، ہم منّت سماجت کے ماہر ہیں گرج چمک کے نہیں۔ ہم نجی ملازم ہیں کبھی دفتر میں افسروں کی منّت سماجت اور کبھی کمپنی کے گاہکوں کی منّت سماجت تو تجربہ کام آیا۔ لیکن آمادگی مشروط ہوئی کہ دعوت صرف دوپہر تک کی ہوگی شام کا پہر وقفِ سُسرال ہوگا۔
ہفتہ کا دن انتہائی مصروف گُزرا۔ اِنتظامِ دعوت نے چُولیں ہلا دیں۔ کبھی گوشت کبھی مصالحہ جات کی ترسیل دن کب آیا کب گیا پتہ ہی نہ چل سکا۔ رات گئے تک انہی چکروں میں لگے رہے۔ اور پھر تھک ہار کے چُور ہو کر نیند کی وادی میں کھو گئے۔
لیکن قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔ اگلے دن صبح صبح اطلاعی گھنٹی کی چنگھاڑتی ہوئی آواز نے تسلسُلِ نیند کو تہ برد کیا۔ خیر ہڑبڑا کر دروازہ کھولا تو سامنے موصوف اپنی مخصوص مُسکراہٹ کے ساتھ موجود تھے۔ کچھ پل کے لئے ایسا لگا کہ کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہا ہوں، لیکن جب موصوف نے روایتی انداز میں معانقہ کیا تو ہم تخیّل سے عالم ہوش میں آئے۔ جب ہوش آیا تو دیکھا موصوف تنہا نہ تھے بلکہ بمعہ اہل وعیال تھے۔ پہلے ہم سمجھے کہ وہ اپنے اہل محّلہ کے طفلان بھی لے آئے ہیں، لیکن جب انہوں بتایا کہ یہ تین بچّے اُنہی کے ہیں اور دو اپنی دادی کے پاس ہیں تو ہم انگُشتِ بدنداں ہو گئے۔ اندر آ کر اہلیہِ موصوف جو کہ موصوف جیسے ہی خیالات کی مالک تھیں نے ہولناک انکشاف کیا کہ اُن میں سے کسی نے ناشتہ نہیں کیا۔ عیالِ موصوف میں سے نصف لوگ حلوہ پُوری اور بقایا نصف انڈے پراٹھوں کے شائق تھے۔ پھر ہم نے بازار اور اہلیہ نے باورچی خانے کا قصد کیا۔ موصوف ہمارے ساتھ ہولئے۔ دُکان پر پہنچ کر اُنہوں نے ساٹھ پُوری کا حُکم نادر شاہی صادر کیا تو ہمارے ساتھ حلوائی بھی ششدر رہ گیا۔ جب لدے پھندے گھر پہنچے تو اہلیہ چالیس پراٹھے بنا کر بے حال تھیں۔ تقریباً دو گھنٹے تک ناشتے کا دور چلا۔ ہماری توقع کے مطابق ظہرانہ تو نپٹ ہی چکا ہے لیکن ابھی عشق کے امتحان اور تھے۔ موصوف کے بچے تو بارہ بجے ہی بھوک کی ہا ہا کار مچانا شروع ہو گئے۔
پھر ہم دوبارہ بازار اور بیگم باورچی خانے کی طرف گامزن ہوئے۔ اب کی بار موصوف نے تیس عدد روغنی نانوں کا آرڈر کیا تو ہم کو ایسا محسوس ہوا جیسے آج ہمارا ولیمہ ہے۔ جب گھر پہنچے تو بیگم نے خشمگیں نگاہوں سے اِستقبال کیا۔ موصوف بمع اہل و عیال کھانے پر ایسے ٹوٹے جیسے نہ کبھی ملا تھا اور نہ آئندہ ملنے کا امکان ہے۔ ہم اور ہماری بیگم دسترخوان سجا سجا کر تھک گئے لیکن ہمارے مہمانِ گرامی بالکل نہ تھکے۔ دسترخوان میدانِ جنگ کا سماں پیش کر رہا تھا۔ پلیٹیں، گلاس، چمچے، کانٹے الغرض تمام ظروف چیخ چیخ کر دہائی دے رہے تھے۔ کہیں سالن کے دھبے تو کہیں بکھرے ہوئے چاول۔ عجب دھینگا مُشتی کا عالم تھا۔ ہمارے بچے بھی انگُشت بدنداں تھے۔ تقریباً ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں طعام کا مرحلہ طے ہوا۔ پھر موصوف نے کہا کہ میاں گرمی بڑی ہے براہِ کرم کمرہ ٹھنڈا دو تاکہ تھوڑا سا قیلولہ ہو جائے۔ ازراہِ مروّت یہ حکم بھی ماننا پڑہی گیا۔ اُس وقت میں اُس گھڑی کو کوس رہا تھا جب ہم نے موصوف کی یاد کو قلمی شکل دی تھی۔ پھر تھوڑی دیر میں کمرہ سویا ہوا محل بن گیا۔ سہ پہر کے وقت موصوف جاگے تو ہم نے سوچا کہ اب قصد مفارقت ہونے کو ہے۔ لیکن اتنی اچھی قسمت نہ تھی ہماری۔ موصوف نے چائے کی فرمائش کر ڈالی۔ بیگم چائے کا پانی رکھنے والی تھیں کہ اہلیہ موصوف جو کہ اپنے شوہرِنامدار کے نقش قدم پر دوڑ رہی تھیں آئیں اور ہماری اہلیہ سے گوش گُزار ہوئی کہ بہن میرے بچے خالی چائے ہضم نہیں کر سکتے، تو ہلکا سا انتظام کردیں۔ ہماری بیگم روہانسی ہو گئیں کیونکہ وہ ابھی چند لمحات پہلے ہی میدانِ جنگ کی صفائی سے فارغ ہوئی تھیں۔ لیکن قہرِ درویش برجان درویش اسی ناچیز کو بازار کا رُخ کرنا پڑا۔ چائے پر وہی میدانِ کارزار برپا ہوا۔
اب ہماری بیگم کا پیمانہء صبر لبریز ہونے والا تھا۔ چائےسے فراغت کے بعد ابن موصوف جو اللہ جھوٹ نہ بلوائے صبح سے بارہ پوریاں، پائے، بریانی، کباب، آٹھ سموسے، آدھا کلو جلیبی، تین کپ چائے، اور ان گنت پکوڑے نوش فرما چکے تھے، گویا ہوئے کہ اُن کے شکم میں درد ہو رہا ہے۔ کریلے پر نیم چڑھا مترادف ابنِ ابوالہول فرماتے ہیں کہ ابّا جان میرے پیٹ میں کُچھ ہے۔ بھائی تیرے شکم میں کُچھ نہیں بہت کُچھ ہے۔ تھوڑی دیر میں ناہنجار بچہ پوری قوّت سے چنگھاڑنے پر آمادہ ہوگیا۔ میرے آنکھوں کے تارے اپنی ماں کے پلّو میں سہم کر چُھپ گئے۔ پھر اِبن موصوف نے چنگھاڑنا اس شرط پر موقوف کیا کہ اُن کو سوڈے کی بڑی بوتل بلا شرکت غیرے مرحمت کی جائے۔ ولی عہد کی معصوم سی خواہش پوری کی گئی۔ لیکن ہمارا یہ فیصلہ ہماری زندگی کے چند غلط فیصلوں میں سے ایک تھا۔ باقی طفلانِ موصوف بھی نازُک صورتِحال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئےدردِشکم کی دہائی دینے لگے۔ تھوڑی دیر میں گھر میں ایسا محسوس ہونے لگا جیسے کوئی افریقی قبیلہ ادق زبان میں کسی منتر کا جاپ کر رہا ہے۔ اِس ہولناک منظر نامے کو ہمار ی زوجہ نے فی کس بڑی بوتل (سوڈے کی) پیش کرکے بدلا۔
پھر وہ وقت آگیا جس کا صُبح سے انتظار تھا۔ موصوف نے واپسی کاارادہ فرمایا۔ موصوف کی اہلیہ ہماری اہلیہ کے گوش گزار ہوئیں کہ اُن کو گھر پہنچتے ہوئے کافی وقت ہو جائے گا تو درخواست ہے کہ کچھ کھانے کا سامان ساتھ ناشتہ دان میں روانہ کیا جائے۔ ہماری اہلیہ نے اس ڈر سے کہ کہیں موصوف پلٹن عشائیہ کا ارادہ نہ بنا لیں فوراً خوان باندھ دیا۔ بلاخر وہ رخصت ہوئے تو ہم نے گھر کا جائزہ لیا تو ہمارے گھر کی حالت پانی پت کے میدان جیسی ہو رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے پورس کے لشکر کے ہاتھیوں نے گھر کاطُوفانی دورہ کیا ہو۔ بیگم کی مزاج بھی خاصا گرم تھا۔ سسرال کا سفرتو قصہء پارینہ بن چُکا تھا۔ لہذا بھلائی اسی میں تھی کہ گھر کی شکست و ریخت کی بحالی کی کارروائی میں بیگم کا ہاتھ بٹایا جائے۔ صبح سے کسی نے کچھ نہ کھایا تھا۔ بھوک سے بے حال ہو کر ہم نے بیگم سے کھانے کی فرمائش کی تو بیگم پھٹ پڑی اور خوب بے نُقط سنائیں اور اگلے دو مہینے تک کچھ بھی لکھنے پر پابندی لگا دی۔ ہم نے تحریری معذرت اور آئندہ مُحتاط رہنے کی یقین دہانی کرائی۔ لیکن چٹھتی نہیں منہ سے یہ کافر لگی ہوئی ہے، پھر ہاتھ میں قلم ہے۔ اللہ بچائے اس تحریر کا خراج کیسے بھرنا پڑے گا۔ سب دوستوں سے اِلتماس ہے کہ ہمارے حق میں دُعا کریں کہ ہم اور ہمارے اہلِخانہ میزبانیِ موصوف سے بچ جایئں۔ ابھی یہ سطریں لکھ رہا تھا کہ موصوف نے خلافِ توقع ہمیں بھی اگلے اتوار کو ظہرانے کی دعوت دے دی۔ چلیں ہم بھی اُن کی میزبانی سے لُطف اندوز ہوتے ہیں۔ اُس کا احوال بھی آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔