پچھلے کالم "ڈپریشن" کے شائع ہونے کے چند روز بعد میرے دوست ڈاکٹر عمّار کی کال آئی اور انہوں نے کُچھ تصیح فرمائی۔ یقین جانئے حقائق اُس سے بھی زیادہ خوفناک ہیں جتنا میں نے بیان کیا تھا۔ مثلاً میں نے بیس لاکھ پاکستانیوں کے ڈپریشن میں مُبتلا ہونے کا ذکر کیا تھا جبکہ تعداد ایک مُحتاط اندازے کے مُطابق تقریباً چوبیس سے ستایئس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اُس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ان تقریباً چوبیس سے ستایئس لاکھ افراد کے علاج کہ لئے طبّی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اور جو میسّر ہیں وہ عام آدمی کی اِستعداد سے باہر ہیں اور تو اور تقریباً ایک لاکھ نوّے ہزار پاکستانیوں کے لیئے صرف ایک مُعالج دستیاب ہے۔ اِس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ پاکستان میں ماہر نفسیات کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔
سب سے بڑا مسلہ یہ ہے کہ اِس بیماری کو بیماری سمجھا ہی نہیں جاتا بلکہ اگر کوئی سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماہر نفسیات سے مدد لیتا ہے تو اس کو کن اکھیوں سے تمسخّر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پھر وہ علاج بیچ میں چھوڑ کر اذیّت والی زندگی گُزارنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ نفسیاتی علاج طویل اور مہنگا ہے اور اس علاج میں ایسا بھی نہیں ہوتا کہ ایک دوا یا ہفتے کی ینٹی بایئوٹک کی خوراک کھائی اور سب ٹھیک ہوگیا۔ لیکن کیا علاج نہ کروائیں۔
جب مُجھے اس تکلیف کا ادراک ہوا تو قُدرتی طور پر میرا ردِّعمل بھی یہی تھا کہ ڈپریشن کُچھ نہیں ہوتا، لیکن جلدی اندازہ ہوگیا کہ نہیں بھائی ہوتا ہے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جیسا پچھلے کالم میں بتایا تھا کہ وجوہات کیا تھیں اور کس طرح ڈپریشن پر قابو پایا۔ تھوڑا اور تفصیل میں جائیں اور سوچیں کہ اگر کہیں آپ کو محسوس کروایا جائے کہ آپ ایک ناکارہ پُرزہ ہو اور ہم نے آپ پر احسان کرکے نوکری پر رکھا ہے وغیرہ وغیرہ۔ تو کیا احساسِ کمتری نہ ہوگا۔ کیا عزّتِ نفس کا استحصال نہ ہوگا۔
خیر جس طرح پہلے عرض کیا تھا کہ ڈپریشن میں داخلے کے کئی دروازے ہیں لیکن نکلنے کا صرف ایک ہی در ہے اور اسکی در کی کُنجی مریض کے ہاتھ میں ہے۔ اب پہلا قدم تو یہ تھا کہ اس امر پر یقین کرنا کہ ہم ذہنی اُلجھن کا شکار ہیں جو کہ سب سے مُشکل کام تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ علامات ذہنی بیماری کی نہ تھیں جیسے کہ مُسلسل سر درد، چڑچڑا پن، بد ہضمی، اور نسیان۔ ان دنوں میں دفتری اور گھریلو دونوں زندگیوں میں ناکامی کی طرف گامزن تھا۔ جیسا پہلے بتایا کہ دفتری ماحول نے اس مرض کو بڑھاوا دیا۔
جب مُجھے دوستوں کے ساتھ کی ضرورت تھی اُس وقت قریبی دوست ساتھ چھوڑ چلے تھے۔ لیکن کچھ دوست بلخصوص سلمان خان، منصور حق، عمران جاوید، سہیل عباسی، علی رضا اور طلحہ صدیقی نے حق دوستی ادا کیا اور بھرپور ساتھ دیا جس کا میں مرتے دم تک اُن کا احسان مند رہوں گا۔ دل تو کرتا ہے کہ اُن لوگوں کا نام بھی لکھوں جو اِن حالات کے ذمہّ دار تھے لیکن پھر سوچتا ہوں کہ کوئی فائدہ نہیں۔ اس دور میں ناچیز نے قلم سے دوری اختیار کی تھی، جس کا شکوہ مُحترم تنزیل اشفاق نے بارہا کیا اور اس دوری نے اور مسائل پیدا کیے جن کا احساس بعد میں ہوا۔ میرے تھیراپسٹ نے نوید سنا دی تھی کہ اگر حالات میں بہتری نہ آئی تو مُجھے دوا لینی پڑے گی جس کے اپنے الگ سے مسائل ہونگے۔
ڈپریشن میں مریض اپنے آپ کو ناکارہ پُرزہ سمجھنے لگتا ہے اور اُس دلدل سے نکلنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ جو لوگ مریض کو اس ابتلا سے نکالنے میں مدد کرتے ہیں ان ہی کو غلط سمجھتا ہے۔ دن اسی طرح گزر رہے تھے اور ہر گُزرتا دن بگاڑ پیدا کر رہا تھا۔ انہی دنوں میں کمپنی نے ایک ٹریننگ کا انتظام کیا۔ اتفاق سے اُس ٹریننگ میں میرا بھی نام آ گیا۔۔ وجیح الرحمان صاحب ہماری کمپنی کی جانی مانی شخصیت ہیں اور اُس ٹریننگ کو وہی لے کر چل رہے تھے۔ ٹریننگ کا موضوع اپنے دماغ کا صحیح استمعال تھا کہ کیسے اپنے دماغ کو مضبوط بنایا جائے کہ وہ مُشکل حالات کا سامنا کرسکے۔
ایک مثال جو وجیح صاحب نے دی کہ ایک ہاتھی جو ٹنوں وزنی ہوتا ہے اور ایک دھان پان سے مہاوت کے اشاروں پر چلتا ہے کیونکہ اس ہاتھی کا وجود طاقتور ہے اور دماغ کمزور جبکہ مہاوت کا دماغ مضبوط او ر جسم کمزور ہے۔ اس ٹریننگ کا بہترین حصّہ خود احتسابی اور بہتری کا جاپانی طریقہ جس کو کائزن کہتے ہیں تھا۔
یقین جانئے اُس ایک گھنٹے نے میری زندگی میں وہ انقلاب برپا کیا جو میرا تھیراپسٹ نہ کر پایا تھا۔ ٹریننگ کے بعد حسب معمول کوالٹی چیک کے لئے ہماری رائے مانگی گئی جو میں نے نہیں دی۔ کیونکہ میں پہلے آزمانا چاہتا تھا اور وہی ہوا میں نے وجیح الرحمان کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا تو جو فیصلے مُجھے سالوں پہلے لے لینے چاہئے تھے چشم زدن میں کرلئے۔ وجہ یہ تھی کہ اب میرا دماغ مضبوطی کی جانب گامزن تھا۔
تو تین ماہ بعد جب خود احتسابی کا عمل کیا تو کافی مسائل کا حل اپنے پاس سے ہی ملا۔ تو پھر کیا تھا پہلا کام وجیح الرحمان صاحب کو ایک تفصیلی ای میل کی جس میں اپنے مسائل اور ان کے حل اُس ٹریننگ کی روشنی میں بیان کیے۔ جو کہ ایک ٹرینر کے لیئے ضروری تھا۔ پھر جو حارث اپنی خود اعتمادی، عزّتِ نفس کھو چکا تھا جو عنقریب سکون آور ادویات کی جانب تیزی سے گامزن تھا دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے لگا۔ اور ایک سال سے بھی کم عرصے میں ہی دینوی سطح پر نماز پنجگانہ کی طرف مائل ہوگیا اور دنیاوی سطح پر دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلیا۔ اور اللہ کی مہربانی سے چند سالوں میں ترّقی کی وہ منازل طے کی جو کہ اُس دورِ ابتلا میں سوچ بھی نہ پاتا۔
آج جب میں مُکمل طور پر ڈپریشن سے نجات پا چُکا ہوں تو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اللہ نے اپنی مہربانی سے مُجھے ایک بہترین شریک حیات دی جس نے میرا بُرے وقتوں میں ساتھ دیا۔ بہترین دوست دیے جنہوں نے یہ احساس دلایا کہ یہ وقت بھی گُزر جائے گا۔ اور جب وہ وقت گُزرا تو ایسا غائب ہوا جیسے کے آیا ہی نہ ہو۔ اب اللہ کی مہربانی سے میں اپنی دفتری زندگی بھی کامیابی سے گُزار رہا ہوں اور اپنی نجی زندگی میں بھی کامیاب ہوں۔
پہلے کسی تفریح کی طرف طبعیت مائل نہیں ہوتی تھی اور اب ہر ہفتے باورچی خانے میں جا کر کوئی خاص پکوان تیار کرکے گھر والوں اور دوستوں کے ساتھ کھاتا بھی ہوں اور اُس پکوان کی تصویر فیس بُک اور واٹس ایپ پر لگا کر تعریفوں کے ڈونگرے بھی وصول کرتا ہوں۔ یعنی تھوڑا وقت اپنی ذات کو بھی دیتا ہوں اور یہ وقت آپ کے لئے وہی کام کرتا ہے جو کہ ایک تھیراپسٹ کی دی ہوئی مسکن آور دوا کرتی ہے۔ اگر ٹائم لائن کی بات کی جائے تو ڈپریشن میں تقریباً تین سال گزارے۔
پہلا سال اِس بات کو جُھٹلانے میں لگا کہ کُچھ نہیں ہے۔ دوسرا سال تکلیف کا عُروج دیکھا اور تیسرے سال یہ باور کیا کہ مُجھے ڈپریشن ہے اور اللہ کےکرم سے میں نے ہی اِس سے نجات حاصل کرنی ہے اور میرے علاوہ کوئی میری مدد نہیں کر سکتا۔ اس سارے جھمیلے میں اللہ کی خاص مہربانی رہی ورنہ لوگوں کی تو عمر نکل جاتی ہے اس مرض میں لیکن اللہ نے مُجھے بہترین شریکِ حیات دی جس نے قدم قدم پرمیرا ساتھ دیا۔ پھر مُخلص دوست دیے جنہوں نے بُرے وقت میں بھی ساتھ نہ چھوڑا۔
آخر میں دو شخصیات جن کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا ایک شازیہ آنٹی جنہوں نے روحانی سطح پر قدم بقدم رہنمائی کی اور دوسرا وجیح الرحمان صاحب کا جنہوں نے میرے سوچنے کے زاویے کو بدلا اور اس مُشکل حالات سے نکلنے میں بھرپور مدد کی۔ آج کا کالم میں اپنی اہلیہ، اپنے دوستوں (سلمان خان، منصور حق، عمران جاوید، سہیل عباسی، علی رضااور طلحہ صدیقی)، شازیہ آنٹی اور وجیح الرحمان صاحب کے نام کرتا ہوں۔
اللہ تعالی ہم سب کو، ہم سب کے اہل خانہ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔