مئی کا مہینہ پچھلے چند سالوں سے اُردو ادب کے لیئے بھاری ثابت ہوا ہے۔ جیسے کہ 10 مئی 2020 جناب اطہر شاہ خان صاحب ہمیں چھوڑ گئے۔ پھر 14 مئی 2021 مُحترم فاروق قیصر رحلت فرما گئے اور 15 مئی 2023 کو میرے اُستادِ مُحترم جناب شعیب ہاشمی فانی دُنیا سے کُوچ کر گئے۔ راقم کا اِن تینوں عظیم ہستیوں سے مُختصر مگر گہرا تعلق رہا ہے۔ میری شخصیت پر اِن حضرات کا کافی اثر ہے۔
اطہر صاحب سے میری پہلی ملاقات نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پرفامنگ آرٹس کراچی میں 2003 میں ہوئی۔ وہ اپنے صاحب زادے کے ساتھ براجمان تھے۔ میں اُن کے پاس گیا اور بعد از سلام عرض کیا سر میں آپ کا بہت بڑا فین ہوں۔ تو انہوں نے برجستہ فرمایا "بر خوردار مُجھے ابھی ملکہ برطانیہ نے سر کا خطاب نہیں دیا جب دے دے گی تو شوق سے سر کہنا۔ ویسے بھی میں تمہارے والد سے کم از کم 20 سال چھوٹا ہونگا تو یا تو بھائی جان بول دو یا چچا جان۔ اور ہاں اگر اتنے بڑے فین ہو تو ہوا کیوں نہیں دے رہے"۔
میری ہکا بکا شکل دیکھ کر بولے بیٹا میرا تو کام ہی مذاق کرنا ہے۔ پھر اپنے بیٹے کو مُخاطب کرکے بولے میاں دیکھ لو تُم اور تُمہاری ماں کو لگتا ہے کہ ہمیں کوئی پسند نہیں کرتا دیکھ لو اب۔ پھر میں نے اپنی لکھی ہوئی ایک ناپُختہ تحریر دکھائی تو بولے میاں تمہاری شکل تو بہت اچھی ہے لکھائی بھی بہتر کرو۔ خیر تُم سُنا دو۔ پوری تحریر تحّمل سے سننے کے بعد گویا ہوئے کہ بیٹا لکھا اچھا ہے لیکن سنجیدہ کبھی کبھی اور مزاحیہ زیادہ لکھنے اور اپنی تحریر میں خود پر ہنسنا کیونکہ دوسروں پر ہنسنے والے بہت ہوتے خود پر ہنسنے والے کم ہیں۔ یہ بات میں نے گرہ سے باندھ لی اور 22 سال گُزرنے کے بعد بھی کاربند ہوں اور اللہ نے میری لکھائی کو عزت تبھی بخشی جب میں نے شاہ صاحب کی بات پلّے سے باندھی۔ اللہ شاہ صاحب کو غریق رحمت کرے۔
مُجھ جیسے انجان کو اتنے بڑے انسان نے اپنی زندگی کا وقت دیا میں مرتے دم تک اسُ عزت کو نہ بھول پاؤں گا۔ لوگ ان کو جیدی کے نام سے جانتے ہیں لیکن جیدی شاہ صاحب کی لازوال تخلیقات میں سے ایک تھی۔
فاروق قیصر صاحب کو ہم 80 اور 90 کے پیدائشی انکل سرگم کے نام سے جانتے ہیں۔ لیکن وہی بات کہ وہ کسی بھی بات کو طنزیہ پیرائے شائستگی سے کرنے کے قائل تھے۔ انکل سرگم ان کی لاتعداد تخلیقات میں سے ایک تھی۔ فاروق صاحب سے میری مُلاقات نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پرفامنگ آرٹس کراچی میں 2004 میں ہی ہوئی جب وہ ارشد صاحب کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ میں نے دونوں کو سلام کیا اور ارشد صاحب سے مہمان سے بات کی اجازت چاہی۔
ارشد صاحب سے پہلے فاروق صاحب نے کہا بیٹا بولو کیا بات کرنی ہے میں نے وہی گھسی پٹی فین والی بات کر ڈالی تو بولے آپ انکل کے فین ہو یا میرے میں نے کہا دونوں کا۔ میرے بطور لکھاری تعارف کے بعد میں نے کسی نصیحت کی درخواست کی تو گویا ہوئے کہ بیٹا لکھو ضرور لکھو لیکن قلم کو بیچنا نہیں۔ قلم سے نکلے الفاظ اولاد کی طرح ہوتے ہیں اور اولاد بکاؤ نہیں۔ پھر اپنے پاس بٹھا کر چائے پلائی اور کہا کہ اس چائے کو کبھی نہ بھولنا۔ یقین مانئے لاکھوں کپ چائے پی لی ہوگی لیکن وہ چائے کبھی بھی میّسر نہ ہوئی۔
فیض احمد فیض کے کُنبے کے ساتھ میرا تعلق بہت گہرا ہے۔ سب سے پہلے فیض صاحب کی شاعری کا راقم جنون کی حد تک عاشق ہے۔ پھر فیض صاحب کی دونوں صاحب زادیاں میری اُستانیاں ہیں۔ اُن کے نواسے جناب عدیل ہاشمی صاحب سے میں نے اردو بولنا اور اداکاری سیکھی۔ میرے بیٹا اور بیٹی دونوں عدیل صاحب کے شاگرد ہیں۔ مرحوم شعیب ہاشمی صاحب میرے اُستاد رہ چُکے ہیں۔ اُن کے ساتھ تو بڑے بڑے قصّے ہیں۔ ہم بھی اُس وقت جوان تھے اور اس زُعم میں تھے کہ ہم فیض کے عاشق ہیں۔
مزے کی بات ہم کو یہ بات پتہ نہیں تھی کہ ہاشمی صاحب کی فیض صاحب سے نسبت کیا ہے۔ ہم اُن کو ایک مزاحیہ اداکار اور اپنے پروفیسر کی حیثیت سے جانتے تھے۔ تو ایک دفعہ کالج کینٹین میں ہاشمی صاحب بیٹھے تھے اور بولے ہاں بھئی کوئی کچھ اچھا بھی کر سکتا ہے کہ نہیں۔ ہم نے اپنی دھاک بٹھانے کو فیض صاحب کی غزل "مُجھ سے پہلی سی مُحبت" سُنا دی۔ غزل ختم ہوئی اور ساتھ میں راقم کی بے عزتی شروع۔ کہتے ہیں تُم نے اُردو کی ایک بے مثال غزل کی ٹانگ توڑ ڈالی ہے۔ نہ لہجہ نہ تلّفظ۔ توبہ فیض صاحب ہوتے تو تمہاری گردن توڑ دیتے۔
خیر بات آئی گئی ہوگئی۔ وہ الگ بات ہے 2022 میں ایک تھیٹر کے ڈرامے میں میں نے فیض صاحب کا کردار نبھایا۔ مُحترمہ سلیمہ ہاشمی، مُنیزہ ہاشمی اور عدیل ہاشمی سامعین میں تھے اور عدیل صاحب نے راقم کو بہت سراہا بھی تھا۔ اسی طرح جب راقم کی نئی شادی ہوئی اور میں اپنی اہلیہ کے ساتھ مٹر گشت کر رہا تھا تو سرراہ شعیب صاحب سے مُلاقات ہوگئی۔ علیک سلیک کے بعد جب اہلیہ کا تعارف کرا یا تو ازراہ مذاق ہاشمی صاحب نے کہا اوئے تُجھ کو کس نے بیٹی دے دی اور بیگم سے مُخاطب ہوئے اور کہا پُتر بندہ ٹھیک نہیں ہے۔ آج تک بیگم کہتی ہیں کہ اُن کے والدین کو ہاشمی صاحب سے ہماری شادی سے پہلے مل لینا تھا۔
خیر آج یہ تین نایاب ہستیوں ہمارے بیچ نہیں لیکن اِن کی علمی میراث ہمارے درمیان زندہ ہے۔ یہ تینوں اپنے شعبوں کے ماہر تھے اور ایک چیز اِن میں مُشترک تھی کہ اتنا بڑا مقام پا لینے کہ بعد بھی یہ مغرور نہیں تھے بلکہ بہت ہی عاجزی اور درویشانہ زندگی گُزار کہ گئے۔ جیسا میں نے پہلے عرض کیا کہ جب میں مزاح لکھتا ہو ں تو شاہ صاحب کے نصیحت کو یاد رکھتا ہوں۔ جب کوئی سنجیدہ لکھتا ہو ں تو فاروق صاحب کو سوچ کر لکھتا ہوں۔ جب اداکاری کرتا ہوں تو ہاشمی صاحب کے کہنے کہ مطابق صحیح لہجہ اور تلّفظ اپنانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں تو ان جوہریوں کے پاس پڑا ہوا ایک ناکارہ پُرزہ ہوں لیکن ان عظیم ہستیوں نے جو ہیرے تراشے ہیں ان کا تو جواب نہیں۔
اللہ اِن تین لوگوں کو اپنے قُرب سے نوازے۔ اِن کی قبور کو منّور کرے۔ اِن لو گوں نے انسانیت کے چہرے پر مُسکراہٹ دی اللہ اِن پر خصوصی رحم فرمائے۔ آمین۔