ناصر کاظمی مرحوم نے یہ غزل نہ جانے کس موڈ میں لکھی تھی اُسکا کُچھ پتہ نہیں لیکن اس خاکسار نے کل جس موڈ میں سُنی اُس کا گُمان تو شاید کاظمی صاحب نے خواب میں بھی نہ کیا ہوگا۔
ہوا کُچھ یوں کہ کل ہفتہ وار چُھٹی کے باعث دفتری مصروفیات سے فراغت تھی، موسم بھی بارش والا تھا۔ تو سوچا ادرک، کالی مرچ، الائچی اور دار چینی کے امتزاج والی چائے نوش کی جائے۔ بارش کی بھینی بھینی خوشبو کا جب چائے کی مہک کے ساتھ جب جوڑ پڑا تو دِل بلاوجہ کلکاریاں مارنے لگا۔ تو سوچا کہ کیوں نہ ناصر کاظمی مرحوم کو سُنا جائے۔ تو پھر کیا کہنے پراتھیا سنگھ کہ انہوں نے جو کاظمی صاحب کے الفاظ کے ساتھ انصاف کیا۔
ابھی ہم سُہانے موسم، سوندھی خوشبو والی گرم چائے، ناصر کاظمی کی شہرہ آفاق غزل اور پراتھیا سنگھ کی مدھُر آواز سے لُطف اندوز ہو ہی رہے تھے۔ کہ اچانک دُنیا بدل گئی۔ ہم جو کانوں میں ٹونٹیاں لگا کر بیٹھے تھے ہم سمجھے کہ دنیا بھی ہماری طرح دھیمی لہروں پر ہچکولے لے رہی ہے۔ لیکن سامنے اہلیہ کھڑی تھیں اور کُچھ بولنےکی کو شش کررہی تھیں۔ جو ہماری سماعت کی استعداد سے باہر تھا۔
اچانک پراتھیا سنگھ کی آواز معدوم ہوگئی اور ایک کڑک دار پُکار کان کے پردے سے ٹکرائی۔ یقین جانئے وہ آواز چائے سے بھی زیادہ کڑک تھی۔ اُس پُکار کی صوتی لہریں میرے نازُک پردہ سماعت سے ٹکرائیں جو اُس وقت بارش کی بوندوں کی ٹِپ ٹِپ، ناصر کاظمی کے موتیوں جیسے الفاظ، پراتھیا سنگھ کی مدھُر سنگیت سے لُطف اندوز ہو رہا تھا۔
قاریئن کرام آپ جانتے ہیں وہ کڑک دار پُکار کیا کہ رہی تھی، "حارث! ایک کلو دہی، دو کلو دودھ، 1 کلو آلو، آدھا کلو ٹماٹر، ایک پودینے کی گڈّی لے آئیں اور سبزی والے سے تازہ سبزی لانی ہے ساتھ میں تھوڑا سا ہرا دھنیا اور ہری مرچیں بھی"۔
مُجھے پورا یقین ہے کہ اگر فیض احمد فیض کی اہلیہ بھی فیض صاحب کو دہی، انڈوں میں اُلجھا کر رکھتیں تو ہم لوگ کلامِ فیض سے بے فیض رہ جاتے۔
میرے عزیز دوست تنزیل اشفاق جو کوئی موقع نہیں جانے دیتے میرا قلم و کتاب سے تعلق تو دوبارہ استوار کروانے کا۔ اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ ایسے حالات میں وہ کیا قدم اُٹھاتے۔ میرے قارئین کرام بھی میری رہنمائی فرمایئں۔
رہی بات نیتِ شوق کی وہ تو کبھی نہیں بھرتی اس بات کا یقین کامل تو راقم کو سودا سلف لاتے ہوئے ہوگیا تھا، ہم نے راستے میں سوچ لیا تھا کہ گھر پہنچ کر سلسلہ وہیں سے بحال کرینگے جہا ں سے مُنقطع ہوا تھا۔ لیکن یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا۔
کیونکہ جب ہم نے مال متاع اہلیہ کے حوالے کیا تو انہوں نے نئی فہرست تھما دی جو وہ پہلے بتانا بھول گئی تھیں۔ تو ہم نے اس کو قسمت کا لکھا مان لیا اور نئی راہوں کے مُسافر ہوگئے۔