چند سال پہلے پہلی بار جب میں نے کہا کہ "پاکستانی نظام کو تیزاب سے غسل دینے کی ضرورت ہے "تو یہ جملہ تیزی سے پھیلتا چلا گیا۔ تب یہ کسی خواب یا سراب سے زیادہ کچھ بھی نہ تھا۔ بیرون اور اندرون ملک مہربانوں نے مرضی کے معنی مطلب نکالے حالانکہ بات صرف اتنی سی تھی کہ اس آدم خور نظام کو عوام دوست بنانے کیلئے تھوڑی سی "صفائی " اور تھوڑا سا "صفایا" بہت ضروری ہے۔ پھر "فالو اپ" کے طور پر اسی بات کو مختلف انداز میں بیان کرتا رہا تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے مثلاً "ایک طرف پورا پاکستان ہے، دوسری طرف چند خاندان۔ دونوں ساتھ نہیں چل سکتے۔ کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا" اس سے بہت پہلے میں جلادوں کے اوورٹائم اور تین شفٹوں میں گلوٹین کے استعمال بارے لکھتا رہا تو میرے وہم وگمان تک میں نہ تھا کہ میں اپنی زندگی میں ایسا ہوتے ہوئے دیکھ سکوں گا کیونکہ پورے ملک پر چند"گینگز" اور "گینگسٹرز" کی گرفت بہت مضبوط تھی جسے میں "جمہوری جن جپھا"بھی کہتا اور لکھتا رہا۔ چشم بددور آج کل اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جس طرح دائیں سے بائیں اور اوپر سے نیچے "صفائی" اور "صفائے" کا عمل جاری ہے، اگر اس کو کسی کی نظر نہ لگی اور یہ عمل صالح اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا تو پاکستان چند سالوں کے اندر اندر سچ مچ کا پاکستان بن سکتا ہے ورنہ آج تو حال یہ ہے کہ ملک ایک ایک ڈالر کیلئے سسک اور تڑپ رہا ہے جبکہ کچھ جمہوری چیمپئنز کے اربوں کھربوں ڈالرز ملک سے باہر چِل (CHILL) کررہے ہیں۔ پورے ملک کی برکت کو ہونجا پھیر کر اپنے اپنے گھروں تک محدود اور مقید کر دینے والے یہ وہ مہم جو اور فنکار ہیں جنہیں آج احتساب انتقام دکھائی دے رہا ہے۔ برہمنوں کو یقین نہیں آ رہا کہ شودر انہیں گلی گلی گھسیٹےپھر رہے ہیں۔ بلبل مر بھی جائے تو اس کی لالی قائم رہتی ہے، رسی جل بھی جائے تو اس کے بل موجود رہتے ہیں۔ شکار آخری سانس تک پھڑپھڑاتا ہے، چراغ بجھنے سے پہلے خوب بھڑکتا ہے سو انہیں پھڑپھڑاتے اور بھڑکتے دیکھ کر برامنانے کی بجائے انجوائے اور ریلیکس کیجئے۔ گزشتہ کل کی بات ہے جب ایک نجی ٹی وی چینل کے ہینڈسم انٹرویور نے اک حضرت صاحب کا حوالہ دیا جو کہہ رہے تھے وہ نیب نوٹس کی دھجیاں اڑا دیں گے، مزہ چکھا دیں گے وغیرہ وغیرہ تو میں نے ہنستے ہوئے نوجوان اینکر سے کہا کہ یہ ایگریشن نہیں، بے پناہ فرسٹریشن ہے، یہ دھمکیاں نہیں بلکہ دھمکیوں کے میک اپ میں چیخیں ہیں۔ چیخیں اور چتائونیاں کسی بادشاہ کی ہوں یا بیربل اور ملا دو پیازہ کی، کسی شہزادی کی ہوں یا نک چڑھی کنیز کی، سوفیصد جائز ہیں اور بلاول غلط کہتا ہے کہ یہ مارتے بھی ہیں اور رونے بھی نہیں دیتے۔ رونے سے لیکر گھورنے اور دھمکانے تک کی پوری اجازت اور آزادی ہے۔ یہ آخری وقت تک ہاتھ پائوں ماریں اور چیخیں چلائیں گے کہ جہاں ایک مرلہ بنجر زمین کے قبضہ پر قتل ہو جاتے ہوں، وہاں لاکھوں مربع میل پر مشتمل سونے کی کان مع 22کروڑ مزدوروں اور غلاموں کے ہاتھ سے نکلنے اور پھسلنے پر یہ ہاتھ نچا نچا کر دھمکیاں بھی نہ دیں، جگتیں بھی نہ ماریں؟یہ رائونڈ مکمل ہو جائے تو "ریکوری" پر فوکس کرنا ضروری ہو گا۔ "مال مسروقہ" تھوڑا نہیں بہت ہے، آدھے کی برآمدگی بھی ہو جائے تو قرضے کینڈے میں آ جائیں گے، خسارے خس کم جہاں پاک اور شاید عوام اپنی اولادیں بھی گروی اور رہن سے رہا کراسکیں۔ بردہ فروشی کی بھیانک ترین قسم یہ ہے کہ "رعایا" کو ان کے بچوں سمیت گروی رکھ کر رقمیں سمیٹو اور اپنی اولاد کو ڈالروں سے لادکر سمندر پار محفوظ کردو۔ اب تیزاب سے غسل جاری ہے۔ گندگی، غلاظت، نجاست کی تہیں اتر رہی ہیں تو دوسری طرف نقاب بھی اتر رہے ہیں جو سب سے تکلیف دہ عمل اور اصل امتحان ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کھال اور نقاب میں سے ایک اتروانے کا آپشن ہو تو یہ نقاب نہیں، اپنی کھال اتروانے کو ترجیح دیں گے اور شاید یہی کچھ ہو بھی رہا ہے۔ مال مسروقہ دینے پر آمادہ ہیں لیکن مانے بغیر کیونکہ سرعام واپسی کا مطلب ہے کہ عوام نے اصلی چہرہ دیکھ لیا جس کے بعد اگلی نسل کا امکان صفر جبکہ ان کی سٹریٹیجی یہ کہ فی الحال تودے دلاکر جان چھڑائو پھر اگلی بار نقب لگا کر سارا مال مع سود مرکب وصول لو لیکن یہ نہیں جانتے کہ معاملہ "سو جوتے سوپیاز" کی طرف جا رہا ہے کیونکہ "تیزاب سے غسل" والا فیصلہ کسی فردواحد کا نہیں، حالات کا جبر اور تقاضا ہے۔ "ہر اک عمل کا ردعمل ناگزیرہے"جونک خون پینا شروع کرے تو پھر رکتی نہیں، پیتی ہی چلی جاتی ہے کہ یہ اس کی ہیئت، ساخت نفسیات کا حصہ ہے لیکن پھر یوں ہوا کرتا ہے کہ جونک خون پیتے پیتے بالآخر پھٹ جاتی ہے۔ یہی کچھ ان کے ساتھ ہوا جن کا خیال تھا کہ ان کی جڑیں پاتال تک گہری اور شاخیں ساتویں آسمان کو چھوتی ہیں، وہ ابودی لاء (ABOVE THE LAW) ہیں اور ان کے انتظامات سو فیصد فول پروف ہیں لیکن پھر انہونی ہو گئی۔ جڑیں کاٹ دی گئیں شاخیں چھانگ دی گئیں اس پراسیس کو نظرنہ لگ گئی تو دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو پاکستان بننے سے نہ روک سکے گی۔ انشااللہ