اللہ ای خیر کرےحکومت کو "احساس" ہو گیا اور اس نے غریبوں کی کفالت کا پروگرام متعارف کرا دیا ہے جس کے نتیجہ میں غریبوں کا واحد "سرمایہ " یعنی غربت بھی ان سے چھین لینے کے ارادے ہیں۔ "غربت مکائو منصوبہ " کے تحت 80 ارب کے مزید فنڈز جاری ہوں گے۔ غریبوں کو دی جانے والی امدادی رقم ساڑھے پانچ ہزار کر دی جائے گی۔ سٹریٹ چلڈرن، بیوائوں، خواجہ سرائوں، بے گھر افراد، بھٹہ مزدوروں اور دیہاڑی داروں کی بھی "مدد" کی جائے گی تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ انسانی تاریخ میں شاید پہلی بار "مدد" کے ذریعہ "خودکفالت" کا ہدف حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ کیسا بھونڈا تضاد اور مذاق ہے۔ میری دعا ہے کہ میرے اندازے اور خدشے بالکل غلط ثابت ہوں لیکن میں یہ بات ریکارڈ پر لانا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ 80 ارب بھی غرق ہو جائے گا اور غربت کی کھوتی یعنی گدھی بھی بدستور بوڑھ یعنی برگد کے نیچے ہی رہے گی۔ بحث کی ضرورت نہیں ڈیڑھ دو سال بعد ساری بات خودبخود سمجھ میں آ جائے گی اور اگر مجھے یاد رہ گیا تو میں یہی کالم دوبارہ پیش کر دوں گا۔ میں نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور ایسے ہی دیگر ڈھکوسلوں کی بھی مخالفت کی تھی، کون سی توپ چل گئی تھی جو اب چل جائے گی؟ 80 نہیں 180 ارب روپیہ خرچ کرکے بھی یہ ہدف حاصل نہیں ہو سکتا۔ دلیلوں کے انبار ہیں لیکن صرف ایک حقیقت عرض کرنے پر ہی اکتفا کروں گا۔ پاکستان اپنی تمام تر اقتصادی زبوں حالی کے باوجود آج بھی اک ایسا ملک ہے جہاں غریب صرف وہی ہے جو غریب رہنا چاہتا ہے کیونکہ غربت اک حد سے گزر جائے تو اک خاص قسم کے نشے میں تبدیل ہو جاتی ہے جو "کلرکوں" کی سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ نشہ سگریٹ کا ہو، ہیروئین کا، تمباکو والے پان کا یا شراب کا،ہر نشئی جانتا ہے یہ جان لیوا ہے لیکن چھوڑ نہیں سکتا، غربت کا بھی یہی حال ہے۔ چاہنے کے باوجود غریب اس سے نجات حاصل نہیں کرسکتالیکن یہ بات "بابوئوں" کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔ میں حکومت کو چیلنج کرتا ہوں، میرے ساتھ مل کر 50 غریب منتخب اور پھر انہیں مانیٹر کرے۔ ایک روپیہ درکار نہیں۔ جو معمولی سی سرمایہ کاری ہو گی میں خود کروں گا۔ 6 مہینوں کے اندر اندر یہ سب غربت کی لکیر سے اوپر اٹھ کر "خود کفیل" نہ ہو گئے تو میں صحافت چھوڑ دوں گا جو میرا پہلا اور آخری رومانس بھی ہے۔ عمران خان نے اس موضوع پر اپنے خطاب میں "رحم" کا لفظ استعمال کیا تو اس پائلٹ پراجیکٹ میں محنت غریبوں کی، منصوبہ اور سرمایہ میرا، حکومت اس میں صرف "رحم"کی INVESTMENT کر دے تو نتائج خود دیکھ لے ورنہ میری طرف سے جتنے 80 ارب چاہے خرچ کرکے شوق پورا کر لے کہ اس طرح کی غیر معیاری، غیر تخلیقی مہم جوئی تو پہلے بھی بہت ہو چکی۔ اگر منصوبہ ساز خود بانجھ ہیں تو کسی ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے کی سن لیں۔ حکومت کے کرنے والا کام یہ ہے کہ وہ صرف اوپری سطح پر ملکی اکانومی کو پٹڑی پر چڑھانے کے چیلنج پر فوکس کرے۔ ملک کی مردہ، پسماندہ آئوٹ ڈیٹڈ اور کرپٹ اکانومی سچ مچ سنبھل جائے تو "غربت کا خاتمہ" تو حکومت کو "جھونگے " میں بغیر کچھ کئے مفت مل جائے گا۔ میں نے جو چیلنج دیا اس میں 6ماہ احتیاطاً لکھے ورنہ 3 ماہ میں سب سامنے آ جائےگا۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، نہ گھوڑا دور نہ میدان۔ اس پر اسیس میں مجھے بہت کھپنا پڑے گا لیکن خیر ہے کیونکہ غربت کے خاتمہ سے خوبصورت خواب اور بڑی نیکی کوئی نہیں۔ افلاس سے تو حضورؐنے پناہ مانگی ہے۔ یہ جو قدم قدم پر بدصورتی بکھری ہے تو اس کے پیچھے بھی غریبی اور غریبی کا نشہ ہے جسے ساحر نے برسوں پہلے بیان کر دیا تھا۔ مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہےبھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتیبھوک...جو بدقسمتی سے برصغیر کے ڈی این اے میں شامل ہے اسے گداگری کے زور پر ہینڈل کرنا ممکن نہیں بلکہ میں تو اس طرح کی مدد امداد کو غریبوں کے خلاف سازش سمجھتا ہو۔ برنرڈشا نے کہا تھا...." دولت مندوں اور سرمایہ داروں کی خیرات اور چندہ سے چلنے والی انجمنیں ہمیشہ دولت مندوں کی طاقت اور موجودہ نظام کو قائم رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ وہ غریبوں کو صبرو تحمل کی تلقین و تبلیغ سے انقلابی جذبات کو ٹھنڈا رکھتی ہیں تاکہ سرمایہ دار بے خوف وخطر ان کا خون چوستے رہیں "آسکروائیلڈ کہتا ہے ...."زمانہ قدیم میں امیروں نے غریبوں کی بغاوت کو روکنے کا یہ موثر طریقہ ایجاد کیا کہ غریبوں کے خون پسینہ کی کمائی کاتھوڑا سا حصہ انہیں خیرات کی صورت میں واپس دے دیا کرتے تھے"خودکفالت اور مدد امداد خیرات میں فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے بشرطیکہ کوئی سمجھنے کو تیار ہو۔