ایک صوبائی وزیر نے کیسی ہوائی چھوڑی ہے کہ "ہر کرپٹ کو اپنے کئے کی سزا بھگتنی ہوگی۔ " یہ بڑھک نما بیان کم از کم اس روز نہ چھپتا تو بہتر تھا جب اخباری سرخیاں چیخ رہی تھیں کہ "پٹرول، ڈیزل 6اور مٹی کا تیل 3روپے لٹر مہنگا ہوگیا" اور بندہ پوچھے اب تک کتنے کرپٹ منطقی انجام کو پہنچے؟ میرے نزدیک اصل سزا اور "منطقی انجام" مال مسروقہ کی برآمدگی ہے جو فی الحال تو دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کو نہ ن لیگ سے کوئی خطرہ ہے نہ "گھر" کے صحن میں ٹرین مارچ کرتی پیپلز پارٹی سے لیکن میں اک اور قسم کے خطرہ کی بو سونگھ رہا ہوں۔ پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ پر گڈز ٹرانسپورٹرز ایسوسی ایشن نے دھمکی دی ہے کہ وہ ملک بھر میں سامان کی ترسیل روک دیں گے۔ یہ یا ایسی کوئی دوسری حرکت زلزلے کا پہلا جھٹکا یا سائیکلون کا پہلا رائونڈ ثابت ہوسکتی ہے جس کے لئے حکومت کو تیار رہنا ہوگا۔ کسی" غیبی مدد" کے بغیر اس طرح کی ایسوسی ایشنز کو سنبھالنا آسان نہیں ہوگا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ بےشمار جینوئن مسائل میں گھری حکومت کو نت نئے مسائل گھڑنے کا شوق کیوں ہے؟ جس کی ایک مثال بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام کی تبدیلی ہے جس پر خود پی ٹی آئی میں بھی تقسیم دکھائی دے رہی ہے جو ایک انتہائی مثبت اشارہ ہے کہ پی ٹی آئی میں بھی ذہن، ظرف اور ضمیر رکھنے والوں کی کمی نہیں۔ کون نہیں جانتا کہ گزشتہ 26برس میں لگا تار ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے کرتوتوں کی انتہائی جارحانہ انداز میں مذمت کرتا رہا اور یہ سلسلہ تب شروع ہوا جب مرحومہ بینظیر "چاروں صوبوں کی زنجیر" کہلاتی تھیں اور یہ بات خاصی حد تک درست بھی تھی۔ عرض کرنے کا مقصد یہ کہ میرے دل میں کسی کے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں کہ میں تو مدتوں "بی بی" اور "بابو" کے درمیان "دو مکھی" لڑتے ہوئے یہی کہتا تھا کہ "جینڈر کے علاوہ دونوں میں کوئی فرق نہیں" لیکن اب جبکہ بینظیر کو دنیا سے رخصت ہوئے برسوں بیت چکے، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنا انتہا درجہ کی بدذوقی کے سوا کچھ نہیں۔ پیپلز پارٹی احمقانہ طریقہ سے اس حکومتی سوچ کو"سازش" قرار دے رہی ہے حالانکہ یہ کسی بھی اعتبار سے "سازش" تو ہرگز نہیں، البتہ کم ظرفی ضرور ہے جو کم از کم اس پارٹی کو زیب نہیں دیتی جس کا سربراہ عمران خان جیسا آدمی ہو جو جانتا ہے کہ "گریس" کسے کہتے ہیں۔ باقی تو چھوڑیں مجھے اپنے حال اور حالت پر بھی ہنسی آرہی ہے کہ موت تک بینظیر بھٹو کی ڈٹ کر مخالفت کی، اس نام نہاد "بینظیر انکم سپورٹ پروگرام" پر تیز ترین تنقید کرتے ہوئے اسے گداگری کی پروموشن کا پروگرام کہتا رہا اور کمال دیکھیں چند روز پہلے جب تبدیلی نام کی تجویز نہیں آئی تھی، میں نے تب بھی اس کی مذمت کی لیکن یہ یکسراک مختلف ڈائمینشن ہے۔ میں نہیں جانتا کہ پی ٹی آئی میں وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے نام کی تبدیلی والے آئیڈیا کی مخالفت کی ہے لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ یہ سب قابل مبارکباد بلکہ خود مبارک لوگ ہیں جو اپنی پارٹی کو ایک انتہائی بھونڈی حرکت سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ناموں کی تبدیلی تاریخ کے ساتھ ٹمپرنگ کی بدصورت ترین حرکت ہوتی ہے۔ اسی لئے میں نے آج تک لائل پور کو فیصل آباد تسلیم نہیں کیا حالانکہ نہ سرجیمز لائل میرا کچھ لگتا تھا اور شاہ فیصل مجھے پسند تھے۔ اسی طرح جب نواب شاہ یا شاید کسی اور شہر کا نام بدل کر بینظیر آباد وغیرہ رکھا گیا، تب بھی مجھے گھن آئی اور میں نے لکھا تھا کہ اگر بینظیر سے اتنی ہی عقیدت ہے تو مرحومہ کے نام پر کوئی نیا خوبصورت شہر آباد کرو، کسی شہر کا پرانا نام تبدیل نہ کرو لیکن نہیں، ہمارا المیہ ہے کہ تعلیم ہی نہیں تربیت کا بھی قحط ہے ورنہ باوقار لوگ تو ایسی حرکتوں کا سوچتے بھی نہیں۔ گلیوں، محلوں، سڑکوں، شاہراہوں کے نام تبدیل کرنا سطحی اور سفلی سوچ ہے۔ "بینظیر انکم سپورٹ پروگرام" کا نام "تبدیلی انکم سپورٹ پروگرام" بھی رکھ دو تو میری بلا سے، میری صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن خود پی ٹی آئی کی صحت پر یقیناً کوئی اچھا اثر نہیں پڑے گا۔ جو کرنا ہو کرو لیکن میں یہ چند سطور سپرد قلم کرکے کم از کم اپنی نظروں میں سرخرو ضرور ہوگیا ہوں۔ چلتے چلتے اک اچھی خبر بھی شیئر کرلیں۔ سنا اور پڑھا یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب بزدار بھولا بھالا کو مخصوص سرگرمیوں تک محدود کرکے وزیر اعلیٰ کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل پر کچھ مزید کاموں کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے، اگر یہ خبر صحیح ہے تو صحیح سمت میں پہلا قدم ہے ورنہ ابھی تک تو پنجاب کے ساتھ گدگدی ہی ہوتی رہی ہے۔ اس خبر پہ میرا پہلاردعمل یہ تھا کہ "ایک نیم خواندہ شہباز کے کام ایک پی ایچ ڈی شہباز کے سپرد کئے گئے تو یہ ایک اچھی خبر ہے۔ " اڑ چکے شہباز کے بارے میں تازہ ترین خبر یہ ہے کہ حضرت اربوں روپے کا وقف رقبہ کوڑیوں کے بھائو بیچ گئے۔ "نیب" نے جی او آر ون سے ملحقہ دربار شاہ شمس کا ساڑھے تیس کنال رقبہ 9سو روپے فی مرلہ میں بیچ دینے کی تفصیلات کا ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔ سابق چیف سیکرٹری، خواجہ احمد حسان اور محسن لطیف بھی"نیب" کے ریڈار پر۔ مجھے اپنا ہی یہ جملہ یاد آرہا ہے کہ "اگر حکمرانوں کا بس چلے تو یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو "پاکستان ہائوزنگ سوسائٹی"بنا کر اس کی پلاٹنگ کرکے بیچ دیں۔ "