کچھ لوگ کرپشن کو کرپشن سمجھتے ہی نہیں، اسی لئے قسمیں کھا کھا کر اس سے انکار کرتے ہیں اور احتساب کو انتقام قرار دیتے ہیں۔ ان لوگوں نے خود کو قائل کرلیا ہوتا ہے کہ جو وہ "وصولتے" ہیں وہ رشوت، کمیشن، کک بیک نہیں، ان کا حق ہے، انعام ہے، تحفہ ہے یا محنتانہ۔ جرم کے ارتکاب کی اک بڑی وجہ ہوتی ہی یہ ہے کہ مجرم جرم کو جسٹی فائی کرچکا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ غداری کے مرتکب میر جعفر و میر صادق بھی خود کو کنونس کرچکے ہوتے ہیں کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں وہ"ملک و قوم کے وسیع تر مفاد" میں ہے جو شخص رشوت میں اپنے اور اپنی فیملی کے لئے عمرے کے ٹکٹ و دیگر اخراجات وصول قبول کرتا ہے اس نے بھی اس حرکت کے لئے کوئی نہ کوئی جواز یا دلیل تو ضرور گھڑی ہوتی ہے، جیسے کسٹم اہلکار حرام کو "سپیڈ منی" کا نام دے کر حلال کرلیتے تھے۔ اور جب کوئی انسان نہیں آدمی خود کو کسی بات پر قائل کرلے تو پھر وہ کسی کام میں عار محسوس نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ ایسا شخص اپنے قومی ترانے کی دھن بھی بیچ سکتا ہے، اپنے قومی پرچم کا چاند بھی گہنا سکتا ہے، اس کا ستارہ بھی نوچ سکتا ہے۔ ہمارا نظام تو پیداوار ہی پیدا گیروں کا ہے جس کا ایک معمولی ساثبوت 1992 کا نام نہاد اقتصادی اصلاحات ایکٹ ہے جو ان جرائم کو تحفظ فراہم کرتا ہے جن کی گونج آج پورے مقروض پاکستان میں سنائی دے رہی ہے۔ اسی لئے مدتوں سے کہہ رہا ہوں کہ جب تک پیدا گیروں کے پیداوار اس نظام کو تیزاب کے ساتھ غسل نہیں دیا جاتا، عوام کو چین نصیب نہیں ہوگا اور ان کے حصہ کا رزق پیدا گیر ہڑپتے رہیں گے۔ انسان کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے یعنی بولنے والا جانور تو حضور! بولنے کا بہت گہرا تعلق "سمجھنے" سے ہے اور سمجھنے کا تعلق تعلیم سے ہے اور اگر اس ملک میں تعلیم ہوتی یعنی شرح خواندگی 80، 90 فیصد بھی ہوتی اور اس خواندگی کا معیار بھی عمدہ ہوتا تو اس وقت منی لانڈرنگ اور جعلی اکائونٹس کی جو خبریں آرہی ہیں تو ملک میں بھونچال آگیا ہوتا، قیامت کا سماں ہوتا لیکن المیہ دیکھو کہ مفرور ملزم بھی دھڑلے سے ٹی وی چینلز پر طوطا مینا او ر الف لیلیٰ سنارہے ہیں۔ ابھی کل ایک فائیو سٹار مفرور کو دیکھ اور سن رہا تھا جو سوالوں کے جواب دینے کی بجائے کبھی بنی گالہ جارہا تھا کبھی علیمہ باجی کے پیچھے چھپنے کی کوشش کررہا تھا۔ سوچتا ہوں کوئی زیادہ سے زیادہ کتنا ڈھیٹ، بےحس یا بکائو ہوسکتا ہے۔ ایسے ناقابل تردید حقائق، ثبوتوں اور اعداد و شمار کی موجودگی میں بھی دفاع کی کوشش کے لئے کسی بہت ہی چکنی مٹی کی ضرورت ہے ورنہ تھوڑی سی شرم و حیا بھی موجود ہو تو بندہ سرجھکا دیتا ہے۔ 500 کھاتے، دو سو جعلی ٹرانزیکشنز اور 32 ایکٹو اکائونٹس اور اوپر سے فواد چودھری کا چیلنج نما یہ بیان کہ ابھی تو شہباز خاندان کے کیسز کا آغاز ہوا ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ دو اخباری خبریں بہت دلچسپ ہیں۔ "شہباز شریف کی لندن میں پراسرار مصروفیات، خفیہ ملاقاتیں"40 سالہ پاکستانی شخص سے سابق وزیر اعلیٰ کی ملاقاتیں، دستاویزات کا تبادلہ بھی کیا۔ معروف قانون دان سے بھی ملاقات، میڈیا سے چھپ کر سرگرمیاں جاری۔ "دوسری خبر زیادہ دلچسپ اور بامعنی ہے، "پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، شہباز شریف کا اہلخانہ سے رابطہ""احتسابی عمل مشکل اور وقتی ضرور ہے، مگر کچھ ہونے والا نہیں، لندن سے فون پر گفتگو"چودھری فواد کا کہنا ہے، "آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا"شہباز شریف کا کہنا ہے،"ہونے والا کچھ نہیں"آج پاکستان اسی ہونے نہ ہونے کے درمیان پھنسا ہوا ہے اور اسی پر اس کے مستقبل کا انحصار ہے۔ ایک بار پھر عرض ہے کہ اگر اس بار بھی احتسابی بادل برسے بغیر گزر گئے، کسی این آر او کا منہ کالا نیلے پیر ہوگئے تو پھر خیر نہیں۔ احتساب کا لفظ بیک وقت گندی گالی اور فحش لطیفہ بن کے رہ جائے گا، بڑے بڑوں کی کریڈیبلٹی صفر بھی نہیں رہ جائے گی اور جن آدم خوروں کے منہ کو ملکی وسائل کا خون لگا ہے، ان کا جنون سنبھالے نہیں سنبھالا جائے گا۔ ان لوگوں کو مصلحتوں کے سبب کلین چٹیں مل گئیں تو ایسا کلین سوئپ کریں گے کہ دنیا دیکھے گی، عوام بھگتیں گے۔ فرانسیسی ماہر اقتصادیات فریڈرک باسٹائٹ نے سوفیصد صحیح کہا تھا کہ "منی لانڈرنگ کرنے والا طبقہ لوٹ مار کے نظام کو قانونی تحفظ دے لیتا ہے۔ " پاکستان اس کی بہترین یا بدترین مثال ہے کہ اس ملک میں تو ٹرانسپورٹرز ریلوے ٹرینوں کی آمد و رفت بھی ڈکٹیٹ کرالیتے ہیں، ایکسپائر ہوچکی اشیائے خورونوش بھی امپورٹ ہو کر ری پیک کرلی جاتی ہیں، دوائوں کی قیمتوں میں بھی جگاڑ لگ جاتے ہیں، ایس آر اوز کو بھی انگلیوں پر نچایا جاسکتا ہے اور کیوں نہ ہو کہ جعلی ذاتوں اور جعلی کلیموں سے شروع ہونے والے سفر کا منطقی انجام تو جعلی اکائونٹس ہی بنتے ہیں لیکن کوئی تو ہو جو اس پراسیس کو ریورس کرسکے کہ ایسا ہوا تو انسانی تاریخ میں پہلی بار نہیں ہوگا۔