1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. آ بِ حیات

آ بِ حیات

ایک دوست کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ ایک صاحب پانی بیچنے آئے۔ ان کے پاس پانی کا نمونہ اور ایک پین نما آلہ تھا۔ انہوں نے دوست سے پوچھا کہ آپ کونسا پانی پیتے ہیں ۔ دوست نے بتایا کہ فیکٹری میں ڈھائی سو فٹ بور ہے اسی کا پانی پیتے ہیں ۔ پانی منگوایا گیا۔ پین نما آلہ اس میں ڈالا اس پر چھ سو پچاس کا عدد آیا۔

ان صاحب نے کہا کہ یہ اس پانی میں امپیوریٹیز یعنی زہریلا پن ہے۔ پھر اپنا پانی نکالا۔ اس میں آلہ لگا یا۔ اس پر پینتالیس کا عدد آیا۔ کہنے لگا یہ دیکھیں ہمارے پانی میں صرف پینتالیس امپیوریٹیز ہیں ۔ دوست بہت متاثر ہوئے۔ بلکہ باقاعدہ پچھتانا شروع ہوگئے کہ ہم اتنا زہریلا پانی پیتے رہے۔

اسی طرح ایک اور دوست کی فیکٹری جانا ہوا۔ پانی پیا تو ذائقہ بالکل کڑوا سا لگا۔ میں نے کہا آپ کا پانی مناسب نہیں لگتا۔کہنے لگے ابھی مہنگے داموں آراو پلانٹ لگوایا ہے۔ ساتھ چیک کرنے کا آلہ بھی لیا ہے۔ آلہ منگوایا گیا، پانی چیک کیا گیا ریڈنگ چالیس تھی۔

وسائل کی فراوانی اور شعور کے ارتقاء سے ہمارے اندر اپنا طرزِ حیات بہتر کرنے کی خواہش تو جاگی مگر علم سے اعراض کی عادت نے اس موقع کو بھی رحمت کی بجائے زحمت میں بدل دیا۔

بات سمجھنے کی ہے۔ زیرِ زمین جتنا بھی پانی ہے اس میں کسی نہ کسی مقدار میں مختلف نمکیات حل ہوتے ہیں ۔ جن کی مقدار اور نوعیت زمین کی نوعیت پر منحصر ہوتی ہے۔ ان نمکیات کو disloved solids اور انکی حل شدہ مقدار کو Total dissolved solids یا TDS کہتے ہیں ۔ اور وہ پین نما آلہ TDS meter کہلاتا ہے۔ جو پانی میں ان حل شدہ نمکیات کی مقدار بتاتا ہے۔

پانی میں عام طور پر سوڈیم، پوٹاشیم، کیلشیم، کاپر میگنیشیم کے نمکیات حل ہوئے ہوتے ہیں ۔ یہ عام طور پر ان کے بائی کاربونیٹ، کلورائیڈ یا سلفیٹ ہوتے ہیں ۔ کبھی کبھی پانی میں مینگنیز، کرومیم، پارہ، سکہ، سنکھیا یا اس طرح کے زہریلے یا خطرناک مرکبات بھی ہوتے ہیں جو انسانی صحت کیلئے نقصان دہ ہیں ۔ لیکن ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے۔ زیادہ تر یہ ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں فیکٹریاں بے احتیاطی سے اپنا استعمال شدہ پانی بغیر واٹر ٹریٹمنٹ کے زیادہ عرصہ تک پھینکتی رہیں ۔ جیسا کہ قصور میں چمڑے کی صنعت کی وجہ سے زمین میں موجود پانی میں کرومیم کی مقدار خطرناک حد سے تجاوز کر گئی تھی۔

عام طور پر مگر زمینی پانی میں سوڈیم، پوٹاشیم، کیلشیم، میگنیشیم اور کاپر ہی ہوتے ہیں ۔ جو زیادہ تر بائی کاربونیٹ، کلورائیڈ اور سلفیٹ کی شکل میں پائے جاتے ہیں ۔ ان کی کل مقدار یعنی ٹی ڈی ایس TDS دوسو 200 ملی گرام فی لیٹر سے 2500 ملی گرام فی لیٹر تک ہوتی ہے۔ اگر یہ مقدار پانچ سو ملی گرام فی لیٹر تک رہے تو پانی کا ذائقہ کڑواہٹ مائل نہیں ہوتا۔ لیکن اگر یہ 800 سے بڑھے تو پھر واضح طور پر کڑواہٹ کا احساس ہوتا ہے۔ اس میں مزید تخصیص ہے کہ بائی کاربونیٹ والا پانی زیادہ کڑوا محسوس ہوتا ہے۔ سلفیٹ والا اس سے کم اور کلورائیڈ والا سب سے کم۔

اسی طرح زیرِ زمین پانی میں کچھ بیکٹیریا، وائرس، فنگی اور دوسرے جراثیم بھی ہوتے ہیں ۔ پانی سے متعلق ساٹھ سے ستر فیصد بیماریوں کی وجہ وائرس ہوتے ہیں جو پیٹ کی بیماریوں اور ہیپاٹائٹس کی بڑی وجہ ہیں ۔ متعدد تحقیقات کے مطابق وائرس دوسو فٹ سے نیچے نہیں پہنچ سکتے۔ اس لیے یہ زیادہ تر پانی کی ٹینکوں اور ترسیل کے نظام سے آتے ہیں ۔ جیسے ہمارے شہروں میں میں زیادہ تر پانی ک یک لائنیں لیک ہوتی ہیں اور ان میں ہر وقت مثبت دباؤ بھی نہیں ہوتا سو وائرس داخل ہونے کے امکانات موجود رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ہیپاٹائٹس کی شرح دنیا کی اوسط سے زیادہ ہے۔

اب چونکہ 500 TDS سے زائد کا پانی کڑوا لگتا ہے اور زیرِ زمین پانی زیادہ تر اس سے زیادہ ہے تو کیا کیا جائے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ پانی کو ایک ایسی باریک جھلی میں سے گذارا جائے، جس کے سوراخ اسقدر باریک ہوں کہ۔ پانی کے مالیکیول اس میں سے گذر جائیں مگر اس سے بڑے مالیکیول اور جاندار وغیرہ نہ گذر پائیں ۔ اس جھلی کو سیمی پرمی ایبل ممبرین کا نام دیا گیا اور اس عمل کو ریورس اوسموسس کہا گیا ہے۔

اس ریورس اوسموسس کے ہزاروں بڑے اور کروڑوں چھوٹے پلانٹ بنائے اور بیچے گئے اور بیچے جارہے ہیں ۔ اکثر گھروں میں جو چھوٹے چھوٹے آر او پلانٹ لگے ہیں وہ یہی ریورس اوسموسس پلانٹس ہیں ۔ یاد رہے کہ سمندر کے پانی کو صاف کرکے قابل استعمال بنانے کے لیے بھی یہی طریقہ کار مستعمل ہے۔

آر او پلانٹ کا طریقہ کار یہ ہے کہ یہ پانی میں موجود تمام نمکیات، ذرات اور جراثیموں کو الگ کردیتا ہے۔ اصولی طور پر اس سے گذر نے کے بعد پانی کا TDS اور بیکٹیریا صفر ہونا چاہیے۔ مگر سیمی پرمی ایبل ممبرین میں موجود کچھ نقائص کی وجہ سے فی الحقیقت ہم 35 سے 60 TDS والا پانی حاصل کرپاتے ہیں ۔ اسی طرح کچھ شرح جراثیم کی بھی پانی میں موجود رہتی ہیں ۔ جبکہ باقی کے نمکیات اور جراثیم اوور فلو کے پائپ سے نکلتے ہیں جن کو ضائع کردیا جاتا ہے۔

بہت سے لوگ یہی 35 سے 65 TDS والا پانی استعمال کرتے ہیں ۔ جیسا کہ میں نے اوپر دو مشاہدات کا ذکر کیا۔ یاد رکھیں کہ یہ سراسر غلط اور نقصان دہ ہے ۔

انسانی جسم کو کیلشیم اور میگنیشیم کی بہت ضرورت رہتی ہے یہ ہڈیوں سے لیکر پٹھوں کی تعمیر اور افعال اور بہت سے اینزائمز کے بننے اور ان کے افعال کے لیے ناگزیر ہیں ۔ جانوروں اور انسانوں پر کی گئی بہت سی تحقیقات سے بات واضح ہو چکی ہے کہ 50 TDS والے پانی کا استعمال انسانی جسم میں مائع اور نمکیات کے توازن کو بہت بری طرح بگاڑ دیتا ہے۔

پیشاب زیادہ آتا ہے۔ پانی کی حاجت بہت رہتی ہے پیاس میں تسکین محسوس نہیں ہوتی۔ اسی طرح نظام انہضام پر موجود میوکس جھلیوں کی شکست وریخت بڑھ جاتی ہے۔ پٹھے کمزور ہونے لگتے ہیں ۔ جسم ضرورت سے زیادہ تھکاوٹ اور درد محسوس کرتا ہے۔ جب کہ ہم اپنی دانست میں رقم خرچ کرکے بہت صحتمندانہ کام کررہے ہوتے ہیں ۔

یاد رکھیں بائی کاربونیٹ والا پانی کم سے کم 200TDS اور کلورائیڈ والا 250 TDS والا پئیں ۔ جب کہ زیادہ سے زیادہ پانچ سو اگر ذائقہ کا مسئلہ نہ ہو تو 650 تک بھی کوئی مسئلہ نہیں ۔ یہ جسم کیلئے ہرگز خطرناک نہیں ۔ بلکہ مفید ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ آراو تو 50 TDS دے رہا ہے۔ اس کا حل آراو پلانٹ میں ہی موجود ہوتا ہے۔ انہوں نے ویسٹ واٹر لائن کو قابل استعمال پانی کی لائن سے ملا کر اس پر ایک ایڈجسٹیبل والو دیا ہوتا ہے۔ جس سے آپ پینے کے پانی کا TDS اپنی مرضی کے مطابق کرسکتے ہیں ۔ سمجھدار کاریگر آراو پلانٹ لگاتے وقت اسے دوسو یا ڈھائی سو پر رکھتے ہیں ۔ اگر نہیں رکھتے تو آپ ان سے کہہ کر اسے ڈھائی سو سے تین سو کے درمیان کروالیں ۔

یہاں یہ بھی جان لینا مفید ہوگا کہ آراو پلانٹ کی جھلی یعنی سیمی پرمی ایبل ممبرین بہت نازک چیز ہے۔ یہ کلورین اور کلورائیڈ سے جلد خراب ہوتی ہے۔ اسی طرح مٹی وغیرہ کے ذرات اس کے سوراخوں کو مستقل طور پر بند کردیتے ہیں ۔ اس لیے اس کے ساتھ ایکٹیوٹڈ کاربن اور سادہ فلٹر لگایا جاتا ہے۔ ایکٹیوٹڈ کاربن کلورائیڈ کو چوس لیتا ہے اور سادہ فلٹر ذرات کو آگے نہیں جانے دیتا جس سے آراو ممبرین کی زندگی اور کارکردگی بڑھ جاتی ہے۔

آراو سے نکلنے والے پانی کا TDS تو ٹھیک ہوگیا۔ مگر اب ایک مسئلہ اور کھڑا ہو گیا۔ کہ جو اور فلو سے پانی لیکر قابل استعمال پانی میں ڈالا ہے سارے بیکٹیریا اور وائرس تو اس میں تھے جو ساتھ ہی واپس آگئے ہیں ۔ اب جناب اس کا بہترین حل یہ ہے کہ آپ ایک اوزونائزر خرید لیں ۔ اوزونائزر ایک چھوٹا سا آلہ ہے جو ہوا سے آکسیجن لیکر اسے اوزون یعنی O 3 میں تبدیل کرتا ہے۔ جونہی یہ O3 پانی میں جاتی ہے یہ O2اور O میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ جسے آپ اٹامک آکسیجن بھی کہہ سکتے ہیں ۔ یہ اٹامک آکسیجن نہ صرف ہر طرح کے بیکٹیریا، وائرس فنگی وغیرہ کو ختم کردیتی ہے بلکہ پانی میں موجود کسی قسم کی بو یا رنگ کو بھی ختم کردیتی ہے۔

ساری تمحیص کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر آپ کے گھر سرکاری پانی آتا ہے تو اس کا TDS 200 سے 500 کے درمیان ہی ہوگا۔ کسی آراو کی ضرورت نہیں ۔ صرف اوزونائزر لگائیں ۔ کسی کولر یا دیگچے میں پانی لیں اس میں پندرہ سے بیس منٹ اوزونائزر لگائیں اور بے فکر ہوکر استعمال کریں ۔ اگر پانی زمین سے لیتے ہیں اور گہرائی دوسو فٹ سے زیادہ ہے تو آراو لگائیں ۔ TDS 250 سے تین سو رکھیں اور سکون سے پئیں ۔ اوزونائزر کی ضرورت نہیں ۔ اور آئندہ جو بھی 50 TDS کا پانی بیچنے آئے اسے سزا کے طور پر یہ مضمون پڑھائیں۔